شیخ سریؒ فرماتے ہیں کہ اشرفیاں ملنے پر میں نے خدا کے شکر میں سجدہ کیا کہ اس نے مجھے یہ نعمت عطا کی اور فجر کا انتظار کرنے لگا۔ جب صبح کی نماز ادا کی، احمد کا ہاتھ پکڑ کر قید خانے میں لے گیا۔ لونڈی کا محافظ دائیں بائیں دیکھ رہا تھا، مجھ کو دیکھ کر مرحبا کہا۔ آیئے خدا اس لونڈی پر مہربان ہے۔ رات کو ہاتف نے مجھے پکار کر کہا ہے۔ شیخ سری سقطی فرماتے ہیں تحفہ (لونڈی) نے جب ہم کو دیکھا، اس کے آنسو ڈبڈبا آئے اور کہا: تم نے مجھ کو سب لوگوں میں مشہور کر دیا۔
اسی حالت میں تحفہ کا مالک روتا ہوا آگیا۔ دل غمگین، رنگ فق، میں نے کہا مت رو۔ جس قدر قیمت تم نے ادا کرکے اس لونڈی کو خریدا تھا، وہ بھی لایا ہوں اور پانچ ہزار نفع بھی دوں گا۔ اس نے کہا نہیں، خدا کی قسم! میں نے کہا دس ہزار نفع لو۔ کہا: نہیں، خدا کی قسم! نہیں لوں گا۔ میں نے کہا قیمت کے برابر نفع لو۔ کہا اگر تم تمام دنیا اس کے عوض میں دو گے، قبول نہ کروں گا۔ تحفہ خدا کے لئے آزاد ہے۔
میں نے کہا کیا بات ہے؟ کہا رات کو مجھے سخت تنبیہ اور جھڑکی دی گئی ہے۔ میں تمام مال چھوڑ کر خدا کی طرف بھاگا ہوں، خدایا تو کشائش کے ساتھ میرا کفیل ہو اور میرے رزق کا ضامن ہو، پھر میری طرف ابن مثنی متوجہ ہوئے۔ میں نے دیکھا وہ رو رہے تھے۔ میں نے کہا: تم کیوں روتے ہو؟ کہا خداوند تعالیٰ نے جس کام کے لئے مجھے بلایا، اس سے راضی نہیں ہوا۔ تم گواہ رہو، میں نے اپنا تمام مال خدا کی راہ میں خیرات کر دیا۔ میں نے کہا تحفہ کیا بڑی صاحب برکت والی ہے۔ تحفہ کھڑی ہوئی، جو کپڑے پہن رکھے تھے، وہ اتار کر پھینک دیئے اور بالوں کا ایک کرتج پہن لیا اور روتی ہوئی نکل کھڑی ہوئی۔
ہم لوگوں نے اس سے کہا: خدا نے تم کو آزاد کردیا، پھر کیوں روتی ہو؟ پھر ہم قید خانہ کے دروازے سے نکلے، اثنائے راہ میں تحفہ کو تلاش کیا، اپنے ہمراہ نہ پایا۔ ابن مثنی راستے میں مر گئے، میں اور تحفہ کا مالک مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، ایک دن میں طواف کر رہا تھا کہ کسی زخمی دل سے زخمی کلام سنا۔ وہ کلام یہ ہے:
’’خدا کا دوست دنیا میں بیمار ہے، اس کا مرض دراز ہے، اس کی دوا خود مرض ہے۔ اس کو شراب محبت کا پیالہ پلا دیا اور پلا کر خوب سیر کر دیا۔ پھر تو وہ دوست محبت میں حیران ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، بجز اس کے دوسرا محبوب نہیں تھا، یہی حال اس کا ہے جو براہ شوق خدا کی راہ کی طرف بلایا جائے، وہ اس کی محبت میں حیران رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کا دیدار نصیب ہو۔‘‘
شیخ سریؒ کہتے ہیں کہ میں اس آواز کی جانب گیا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو اس نے کہا: اے سری میں نے کہا: لبیک تم کون ہو؟ خدا تم پر رحم کرے؟ جواب میں کلمہ طیبہ پڑھ کر کہا: معرفت کے بعد اب انجان ہوگئے، میں تحفہ ہوں۔ وہ اس وقت بالکل ضعیف و ناتواں تھی، جیسے کسی کا خیال دل میں گزرے، وہ اس طرح نظر آتی تھی۔ میں نے کہا: اے تحفہ جب سے تم خلقت سے جدا ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہوئی، خدا سے تم کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ کہا: اپنے قرب سے انس دیا، غیر سے مجھ کو وحشت دی۔
میں نے کہا: ابن مثنی مر گئے۔ کہا خدا ان پر رحم فرمائے، میرے رب نے ان کو وہ اعزاز عطا کئے ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔ جنت میں ان کی جگہ میرے پڑوس میں ہے۔ پھر میں نے کہا: تمہارا مالک جس نے تم کو آزاد کیا ہے، میرے ساتھ ہے۔ یہ سن کر تحفہ نے کچھ دعا مخفی مانگی، میرے دیکھتے ہی دیکھتے تحفہ کعبہ کے روبرو مردہ نظر آئی۔ جب اس کے مالک نے اس کو مردہ دیکھا تو اپنے کو سنبھال نہ سکا، وہ بھی منہ کے بل گر پڑا۔ میں نے پاس جا کر ہلایا تو وہ بھی دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔ پھر میں نے دونوں کے غسل و کفن سے فراغت کرکے دونوں کو دفن کردیا۔ ان پر خدا کی رحمت ہو۔ (ازکرامات اولیاء)
حاصل… بیشک نیک لوگ ایسی ہی نرالی شان کے مالک ہوتے ہیں، رب تعالیٰ ہمیں بھی اس واقعہ سے سبق حاصل کرکے نیک بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭٭٭