دوسری قسط
احمد خلیل جازم
موضع ریحان میں حضرت صفدانؑ کے مزار پر اس وقت کوئی موجود نہ تھا۔ مزار کے سرہانے دیوار پر سبز رنگ کا ایک پوسٹر چسپاں تھا، جس پر مکمل شجرہ نسب بھی درج تھا۔ اس کے علاوہ قبر کی پائنتی کی طرف لکڑی کے چھوٹے چھوٹے رولر رکھے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے ضیا شیخ کا کہنا تھا کہ ’’یہ لکڑی کے رولر جہاں پھوڑے پھنسیاں نکلی ہوں، ان پر پھیرنے سے وہ ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ یہ روایت بھی موجود ہے کہ یہاں ہر بیمار کو ہر قسم کی بیماری سے شفا نصیب ہوتی ہے۔ مسلسل 41 دن روزانہ مزار پر حاضری دینے سے کسی قسم کا مہلک مرض ہو، اس سے پروردگار شفا دیتا ہے‘‘۔ ہماری موجودگی میں دو نوجوان موٹرسائیکل پر حاضری دینے کی غرض سے آئے تو ان سے پوچھا کہ یہاں جو متولی ہیں، وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہیں کہیں ہوں گے، مزار چھوڑ کر جاتے نہیں ہیں۔ ہمارے کہنے پر وہ مزار کے متولی نذر حسین کو ڈھونڈ کر لے آئے۔
نذر حسین نے کا بتانا تھا کہ وہ مزار کا خادم ہے، اور اس کا کام مزار کی صفائی ستھرائی ہے۔ جبکہ مزار کی دیکھ بھال دو لوگوںکے پاس ہے، جن میں سے ایک کا نام ماسٹر چوہدری محمد نواز ہے، جبکہ دوسرا صادق لانگڑی ہے۔ مزار کے گلّے سے جو رقم نکلتی ہے، وہی رکھتے ہیں اور یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ مزار پر جو ضروریات ہوں، انہیں پورا کریں۔ میں یہاں صرف صفائی کی ڈیوٹی پر مامور ہوں۔ صاحبِ مزار کی کرامات کا دور دور تک چرچا ہے۔ اس علاقے کے مختلف قصبات میں پانچ برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک حضرت صفدانؑ ہیں، جو حضرت موسیٰ حجازیؑ کے بھائی ہیں۔ آپ کا عرس مبارک اسلامی مہینے کے بجائے دیسی مہینے میں ہوتا ہے۔ یہ عرس ہاڑ کی دوسری جمعرات کو شروع ہوجاتا ہے جو تین روز جاری رہتا ہے۔ یہ مزار ایک کلہ (آٹھ کنال) قطع زمین پر واقع ہے اور یہ سارا رقبہ مزار کا ہی ہے۔ عرس کے موقع پر یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ نہ صرف ملک کے ہر شہر سے لوگ مرادیں مانگنے آتے ہیں، بلکہ بیرون ملک سے بھی خاص طور پر لوگ یہاں حاضری دینے آتے ہیں اور بامراد واپس جاتے ہیں۔ صاحبِ مزار جلالی طبیعت کے مالک ہیں۔ ایک وقت تھا کہ موضع ریحان میں کوئی اپنے مکان کی چھت پر نہیں سو سکتا تھا۔ نہ ہی کوئی گائوں کی حدود میں رفع حاحت کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو صاحبِ مزار کی ناراضی مول لینے کے مترادف ہوتا۔ پھر کچھ بزرگوں نے یہاں دعائیں کیں تو قصبے والوں کو چھت پرسونے اور رفع حاجت کی اجازت ملی۔ ہمارے بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ مزار سے متصل ایک کنواں ہوتا تھا، جس سے سارا دن پانی نکالا جاتا تھا۔ لیکن رات کو اس کنویں سے کوئی پانی نکالنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ سرکار کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی رات کو کنویں میں ڈول ڈالتا تو اس ڈول میں پانی کے بجائے سانپ بھرے ہوئے نکلتے۔ جب تک کنواں چلتا رہا، رات کو کسی نے اس سے پانی بھرنے کی جرات نہیں کی۔ بعد میں اس کنویں پر رہٹ لگا دیا گیا، تو پھر بھی وہی صورتحال برقرار رہی۔ رات کو رہٹ چلایا جاتا تو اس کے لوٹوں میں سانپ بھرے ہوئے ملتے۔ اب تو خیر وہ کنواں ختم ہوچکا ہے، لیکن یہ بات گائوں کا بچہ بچہ جانتا ہے‘‘۔ کیا وجہ تھی، رات کو کیوں منع کیا گیا؟ اس سوال پر نذر کا کہنا تھا ’’بس اللہ کے نیک بندوں کی رمزیں اللہ ہی جانتا ہے۔ سارا دن کنواں چلتا رہتا تھا۔ کبھی کسی نے دن کے وقت سانپ کا بچہ بھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن جیسے ہی رات آتی اور کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش کی جاتی تو پانی کے بجائے سانپ نکلنا شروع ہوجاتے‘‘۔ اس سوال پر کہ آپ کب سے اس مزار پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟ نذر نے بتایا ’’مجھے دس برس ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل میرے والد صاحب یہاں برسوں تک خادم رہے۔ میں فوج میں ڈیوٹی دیتا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے والد کا ارتحال ہوا تو انہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپ دی۔ چنانچہ اس وقت سے میں یہاں خدمت کر رہا ہوں‘‘۔
اس سوال پر کہ کیا یہ قبر اسی طرح لمبی اور پرانی ہے؟ تو نذر کا کہنا تھا ’’پہلے تو آپ ظاہر ہی نہیں تھے۔ آپ کا ذکر حافظ شمس الدین نے کیا تھا، لیکن اس وقت تک یہاں قبر کا ظہور نہ ہوسکا۔ بعد ازاں اعوان شریف سے قاضی سلطان محمود اسی راستے سے سفر کرتے ہوئے ٹانڈہ سے متصل گائوں ’موٹا‘، حضرت مرطوشؑ کے مزار پر جایا کرتے تھے۔ حضرت مرطوش بھی اللہ کے برگزیدہ نبی ہیں۔ قاضی صاحب کی روٹین تھی کہ وہ جب بھی موضع موٹا جاتے، انہی ٹیلوں کے قریب بنے راستے سے ہوکر جاتے۔ ایک روز قاضی صاحب یہاں سے گزرے تو انہیں آواز سنائی دی کہ قاضی سلطان ہماری بات سنو۔ قاضی سلطان محمود رک گئے۔ آس پاس دیکھا۔ کسی کو نہ پاکر دوبارہ چل پڑے تو دوبارہ آواز آئی کہ ہماری بات سنو۔ قاضی صاحب نے کہا کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں رہا، کون ہے اور کس کی بات سنوں۔ تو صاحبِ مزار نے فرمایا کہ یہی بہتر ہے کہ ہم تم پر آشکار نہ ہوں، ورنہ تم تاب نہ لاسکو گے۔ چنانچہ قاضی صاحب اس ٹیلے پر آئے تو صاحبِ مزار نے اپنے مدفن کے حوالے سے قاضی صاحب کو حکم دیا کہ اب ان کی قبر کو عیاں کیا جائے۔ چنانچہ قاضی صاحب کو جس طرح قبر کے بارے میں بتایا گیا، انہوں نے ویسے ہی نشان لگادئیے۔ اس کے بعد قاضی صاحب آپ سے اجازت لے کر موضع موٹا پہنچے۔ وہاں قاضی سلطان محمود کے مریدین خاصی تعداد میں موجود تھے۔ آپ نے مریدین کو ساتھ لیا اور موضع ریحان اس ٹیلے پر آگئے۔ اتنے لوگوں کا اکٹھ دیکھ کر گائوں کے لوگ جو اس وقت کسی فصل کی کٹائی میں مصروف تھے، وہ بھی پوچھنے آگئے کہ یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ قاضی صاحب نے انہیں صاحبِ مزار کے بارے میں بتایا۔ وہ لوگ کام کاج چھوڑ کر ٹیلے کی جانب بڑھے۔ قاضی صاحب نے ایک فاصلے پر سب کے جوتے اتروا دئیے، تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ اس ٹیلے پر اس وقت بے شمار جھاڑیاں اور خود رو پودے تھے۔ جنہیں تمام لوگوں نے مل کر صاف کیا۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے آپ کی قبر مبارکہ کی نشان دہی کے مطابق قبر کو ظاہر کیا۔ یہ نو گز لمبی قبر بنی۔ حیران کن طور پر اس وقت کسی قسم کا آلہ یا فیتا ایسا نہ تھا کہ اس سے ماپ لیا جاتا کہ کتنے گز لمبی قبر ہے۔ لیکن دیگر قبور کی طرح یہ بھی پورے نو گز ہی بنی، نہ ایک انچ اوپر اور نہ ہی ایک انچ نیچے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ گوہر الدین آف جینڈر شریف تشریف لائے۔ انہیں اللہ نے کشف القبورکا علم عطا کر رکھا تھا۔ چنانچہ جب وہ صاحبِ مزار سے ہم کلام ہوئے تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ آپؑ اللہ کے نبی ہیں۔ اس وقت تک یہاں قبر کے اردگرد گائوں کے لوگوں نے اپنے طور پر چھوٹی سی چار دیواری تعمیر کردی تھی۔ خواجہ صاحب کو صاحبِ مزار نے اپنا پورا شجرہ نسب بتایا، تو انہوں نے آپ کی اجازت سے مزار کی تعمیر کے لیے کمر کس لی۔ پہلی بار باقاعدہ مزار خواجہ گوہرالدین نے تعمیر کرایا۔ ا س سے قبل گائوں کے لوگوںکو آپ سے فیض ملنا شروع ہوچکا تھا۔ بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کے گھر فاقے ہوتے تھے۔ وہ مسلسل مزار پرحاضری دینے لگے تو خدا نے ان کے لیے خزانوںکے منہ کھول دئیے۔ بعض لوگوں کی پرانی دشمنیاں چل رہی تھیں، جو آپ کے فیض سے دوستیوں بلکہ رشتہ داریوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یہاں روزانہ لوگوںکا تانتا بندھنے لگ گیا۔ چونکہ طبعیت جلالی ہے، اس لیے بعض لوگوں کو بے ادبی پر سرزنش بھی ملتی رہی۔ مثلاً مزار سے آج تک کوئی لکڑی کا ایک ٹکڑا کسی درخت سے کاٹنے کی جرأت نہیںکرتا۔ اگر ایساکیا جائے تو وہ بہت نقصان اٹھاتا ہے۔ ایک بار ایک شخص نے یہاں لکڑی کاٹنے کا ٹھیکہ لیا۔ آس پاس کی لکڑی تو کاٹ لی، لیکن مزار کی لکڑی نہ کاٹ سکا۔ خدا جانے کیا رکاوٹ تھی۔ لکڑی تو پھر بھی کام کی چیز ہے، یہاں سے تو پتھر لے جانے کی اجازت نہیں۔ اگر کسی نے کوئی چھوٹا موٹا پتھر بھی اٹھایا تو جاتے ہوئے وہ جیب سے اسے واپس پھینک کر جاتا ہے‘‘۔ کیا کسی شخص کو صاحب مزار کی زیارت بھی نصیب ہوئی؟ اس حوالے سے نذر نے بہت دلچسپ باتیں بتائیں، کہ کیسے صاحب مزار کی زیارت ہوئی اور اس کی کیا حالت ہوئی۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post