معارف القرآن

0

خلاصہ تفسیر

جب قیامت آوے گی جس کے واقع ہونے میں کوئی خلاف نہیں (بلکہ اس کا واقع ہونا بالکل صحیح اور حق ہے) تو وہ (بعض کو) پست کر دے گی (اور بعض کو) بلند کر دے گی (یعنی کفار کی ذلت کا اور مومنین کی رفعت کا اس روز ظہور ہوگا) جبکہ زمین کو سخت زلزلہ آوے گا اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو جاویں گے، پھر وہ پراگندہ غبار (کی طرح) ہو جاویں گے اور تم (سب آدمی جو اس وقت موجود ہو یا پہلے گزر چکے ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں) تین قسم ہو جاؤ گے (جن کی تفصیل آگے آتی ہے، خواص مومنین اور عوام مومنین اور کفار کہ سورئہ رحمن میں بھی یہی تین قسمیں مذکور ہیں اور آئندہ آیات میں خواص کو مقربین اور سابقین کہا ہے اور عوام مومنین کو اصحاب الیمین اور کفار کو اصحاب الشمال اور ان آیات ’’اذا وقعت‘‘ سے ’’ثلۃ‘‘ تک میں بعض واقعات نفخہ اولیٰ یعنی پہلے صور کے وقت کے بیان فرمائے ہیں جسے رجت، جیسا شروع سور حجر میں آیا ہے اور بست اور بعض واقعات نفخہ ثانیہ یعنی دوسرے صور کے وقت کے جیسے خافضۃ رافعۃ اور کنتم ازواجا اور بعض مشترک جیسے اذا وقعت اور لیس لوقعتہا، چونکہ نفخہ اولیٰ سے نفخہ ثانیہ تک کا تمام وقت ایک وقت کے حکم میں ہے، اس لئے ہر جز وقت کو ہر واقعہ کا وقت کہا جاتا ہے، آگے ان تینوں قسموں میں تقسیم بیان کرنے کے بعد تینوں کے احکام الگ الگ ذکر کئے ہیں، اول اجمالاً پھر تفصیلاً کہ تین قسمیں جو مذکور ہیں) سو (ان میں ایک قسم یعنی) جو داہنے والے ہیں وہ داہنے والے کیسے اچھے ہیں (مراد اس سے جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور گو یہ مفہوم مقربین میں بھی مشترک ہے، لیکن اسی صفت پر اکتفا کرنے سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ ان میں اصحاب الیمین سے زائد کوئی اور صفت قرب خاص کی نہیں پائی جاتی، اس طرح مراد اس سے عوام مؤمنین ہوگئے اور اس میں اجمالاً ان کی حالت کا اچھا ہونا بتلا دیا ، آگے فی سدر مخضود الخ سے اس اجمال کی تفصیل کی گئی ہے )(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More