حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

سید ارتضی علی کرمانی
ولایت کا درجہ:
حضرت بشر حافیؒ کے رب کی طرف رجوع ہونے کا واقعہ اس طرح سے ہے کہ آپ نوجوانی کے دنوں میں آزاد خیال آدمی تھے۔ ایک مرتبہ آپ اپنی جوانی کے خمار میں مست چلے جا رہے تھے کہ راستے میںآپ کو کاغذ کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا دکھائی دیا۔ آپ نے اسے بڑے ادب اور تعظیم کے ساتھ اٹھایا اور اس کو پڑھا تو اس پر لکھا ہوا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس کاغذ کو آپ نے عطر لگایا اور پھر اسے ایک پاک صاف جگہ پر احترام کے ساتھ رکھ دیا۔ اسی رات جب کہ آپ سوئے ہوئے تھے ایک غیبی ندا آپ کو سنائی دی کہ اے بشر! تو نے میرے نام کو معطر کیا، مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی! کہ تیرے نام کی خوشبو کو دنیا و آخرت میں پھیلاؤں گا، حتیٰ کہ اگر کوئی تجھے نہ بھی جانتا ہوگا، مگر اسے تیرا نام سن کر دلی راحت حاصل ہوگی۔
آپ جب سوکر اٹھے تو دل میں ایک انقلاب برپا ہوچکا تھا، اسی وقت اپنی آزاد روش سے توبہ کی اور فقیری اور درویشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس درجے ولایت پر فائز ہوئے کہ ہر وقت حق تعالیٰ کے ذکر میں مست رہے اور پھر عالم استغراق میں ڈوب کر وہ وقت بھی آیا کہ آپ نے اپنے پاؤں میں جوتے پہننے چھوڑ دیئے، جس کے باعث آپ کا نام ’’حافی‘‘ یعنی ننگے پاؤں والا پڑ گیا۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے جوتا پہننا کیوں ترک کردیا اور ہر وقت ننگے پاؤں کیوں رہتے ہیں؟
آپ نے ارشاد فرمایا: اس لئے کہ زمین تو میرے محبوب کا بنایا ہوا فرش ہے اور میں اس بات کو روا نہیں سمجھتا کہ محبوب کے بچھائے ہوئے فرش پر اپنے پاؤں کو رکھوں اور اپنے پاؤں اور اس کے فرش کے مابین کوئی واسطہ رکھوں۔
ایک عارف کی مناجات:
ذوالنون مصریؒ سے روایت ہے کہ میں ایک روز کعبہ شریف کا طواف کررہا تھا اور حالت یہ تھی کہ سب لوگوں کی آنکھیں کعبہ کی طرف لگی ہوئی تھیں اور اسے دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر رہے تھے کہ اسی حالت میں ایک شخص کعبہ کے مقابل ہوکر اس مضمون کی دعا کرنے لگا:
اے میرے پروردگار! میں تیرا مسکین بندہ اور تیرے در سے بھاگا ہوا اور دھتکارا ہوا ہوں۔ خدایا! میں ایسی چیز کا سوال کرتا ہوں کہ وہ آپ کی محبت و قرب کا زیادہ ذریعہ ہو اور ایسی عبادت مانگتا ہوں جو آپ کو زیادہ پسند ہو اور اے پروردگار! میں آپ سے آپ کے برگزیدہ بندوں اور انبیاء کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ اپنی محبت کا پیالہ مجھے پلا دیجیے اور میرے دل سے اپنی معرفت کے لیے جہل کے پردے اٹھا دیجیے تاکہ میں شوق کے بازوؤں سے آپ تک اڑ کر عرفان کے باغوں میں آپ سے مناجات کروں۔
اس دعا کے بعد وہ شخص اتنا رویا کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں، پھر ہنسا اور وہاں سے چل دیا۔ القصہ مسجد حرام سے نکل کر مکہ مکرمہ کے ویرانے کی طرف ہولیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا تو مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: تمہیں کیا ہوا کیوں آرہے ہو؟ جاؤ! میں نے پوچھا آپ کا نام کیا؟ کہا عبد اللہ۔ میں نے پوچھا کس کے بیٹے ہو؟ کہا عبد اللہ کا۔ میں نے کہا: یہ تو میں جانتا ہوں کہ ساری خلقت عبد اللہ (اللہ کے بندے) اور ابن عبد اللہ (اللہ کے بندے کے بیٹے ہیں) میں آپ کا خاص نام دریافت کرتا ہوں، کہا: میرے باپ نے میرا نام سعدون رکھا ہے۔
میں نے کہا: جو مجنون کے نام سے مشہور ہے۔ کہا ہاں وہی۔ میں نے پوچھا: وہ کون لوگ ہیں، جن کے وسیلے سے تم نے حق تعالیٰ سے دعا کی ہے۔ فرمایا: کہ وہ اپنے رب کی طرف ایسے چلتے ہیں، جیسے وہ چلتا ہے اور وہ خدا کی محبت کو نصب العین کیے ہوئے اور لوگوں اور تمام دنیا کی چیزوں سے ایسے الگ ہوئے ہیں کہ جیسے کسی کے دل میں آگ لگی ہوئی ہو۔ (نزہۃ البساتین) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More