عبدالمالک مجاہد
حضرت اس مظلوم عورت نے عابد کا گھر بھی چھوڑا تو جدھر کو خدا نے چاہا، ادھر چل دی۔ تھوڑی دور گئی تو اس نے دیکھا کچھ لوگ ایک آدمی کو بری طرح مار رہے ہیں۔ اسے اس شخص کو پٹتا دیکھ کر ترس آ گیا۔ آگے بڑھی، کہنے لگی: بھائیو! تم اس شخص کو کیوں مار رہے ہو؟ کہنے لگے: اس نے ہمارا قرض دینا ہے۔ ہم نے اس کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ اگر تم نے قرض واپس نہ کیا تو ہمارے غلام بن جاؤ گے۔ اب ہم اسے اس لیے مار رہے ہیں کہ یا تو قرض واپس کرے یا غلام بننا قبول کرلے۔
عورت نے پوچھا: اس کا قرض کتنا ہے؟ کہنے لگے: اس پر دو دینار قرض ہے۔ عورت نے کہا: اگر اس کا قرض میں ادا کر دوں تو اس بے چارے کی جان چھوڑ دو گے؟ کہنے لگے: ہمیں اپنے دیناروں سے غرض ہے۔ عورت نے اپنی جیب سے عابد کے دیئے ہوئے دو دینار نکالے اور کہنے لگی کہ یہ رہے دو دینار، اب اس کا راستہ چھوڑ دو۔ انہوں نے دو دینار لیے اور اس شخص کو چھوڑ دیا۔
اس شخص نے عورت سے پوچھا کہ تم کون ہو اور تمہاری کیا کہانی ہے؟ اس نے اپنا قصہ بیان کیا تو وہ شخص کہنے لگا: ہم دونوں کہیں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ہمیں جو معاوضہ ملے گا، اسے آدھا آدھا کر لیں گے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ اس شخص نے دیکھا کہ عورت بڑی خوبصورت ہے۔ کہنے لگا: یہ علاقہ برے لوگوں کا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ سمندر کے اس پار اچھے لوگ رہتے ہیں، وہاں چل کر رہتے ہیں۔
اس نے کہا: تمہاری بات ٹھیک ہے۔ چلو اس علاقے کو چھوڑتے ہیں۔ وہاں سے وہ ساحل سمندر پر پہنچے۔ وہاں بحری جہاز تیار تھا۔ وہ شخص کہنے لگا: تم جہاز پر سوار ہو جاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔ وہ معصوم عورت جہاز پر سوار ہو گئی تو یہ شخص بڑے ملاح کے پاس جا پہنچا۔ کہنے لگا: یہ عورت میری لونڈی ہے، میں اسے فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی خریدار ہو تو میں اسے مناسب قیمت پر بیچنے کے لیے تیار ہوں۔ ملاح نے قیمت پوچھی تو اس نے بڑی مناسب قیمت بتائی۔ سودا ہو گیا، اس شخص نے قیمت جیب میں ڈالی اور وہاں سے فرار ہوگیا۔
اس بیچاری کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا واردات ہوگئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب جہاز ساحل سے روانہ ہوا تو ملاح اس عورت کے اردگرد گھومنے لگا۔ عورت نے اس شخص کو تلاش کیا تو وہ اسے نظر نہ آیا۔ اسے ملاح کی نظر میں خرابی نظر آئی۔ ملاح کہنے لگا: تم آج سے میری لونڈی ہو، میں نے تمہیں اس شخص سے خرید لیا ہے۔ اب تمہیں میرا ہر حکم ماننا ہو گا۔ مگر میں تو اس کی لونڈی نہیں تھی۔ عور ت نے جواب دیا۔ ان کی آپس میں بحث جاری تھی کہ یکایک سمندر میں طوفان آگیا۔ طوفان اس قدر تیز تھا کہ جہاز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر پڑ گئی۔ جہاز ٹوٹ گیا عورت بھی ایک تختے کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے دیکھا کہ سمندر کی لہریں یکے بعد دیگرے ملاحوں کو نگل رہی ہیں۔ جان بڑی پیاری ہوتی ہے۔سمندر کی لہریں اس سے ٹکراتی رہیں، مگر اس نے لکڑی کے تختے کو مضبوطی سے تھامے رکھا، حتی کہ آہستہ آہستہ سمندری طوفان کم ہوتا چلا گیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post