سنت اور اخلاص کی حقیقت

0

کوئی نیکی، نیکی نہیں ہوتی جب تک اخلاص نہ ہو اور کوئی سنت، سنت نہیں ہو گی جب تک وہ حضور اقدسؐ کے طریقے کے مطابق نہ ہو۔ یہی دو چیزیں ہیں جن سے اعمال میں وزن پیدا ہوتا ہے۔ اگر اخلاص ہے مگر سنت کے خلاف ہے، وہ عمل بے کار اور بے وزن ہے۔ مثلاً اگر کوئی مشرک نماز پڑھتا ہے تو اس کا یہ عمل بظاہر سنت کے مطابق ہے، مگر چونکہ اخلاص نہیں ہے، یعنی خدا تعالیٰ پر ایمان کے بغیر ہے تو اس کی نہ کوئی قیمت ہے نہ وزن۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آخرت میں اعمال کا وزن ہو گا، ہر قول اور ہر عمل میزان عمل میں تولا جائے گا۔ قرآن کریم کی سورۃ القارعۃ میں قیامت کی ہولناکیوں کے بعد ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی (بھاری) ہوں گے تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے، اس کا ٹھکانہ ایک گہرا گڑھا ہوگا اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ گہرا گڑھا کیا ہے؟ ایک دہکتی ہوئی آگ۔‘‘ (سورۃ القارعۃ، آیات 6 تا 11)
ایک اور جگہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ترجمہ: ’’ہم قیامت کے دن میزان عمل قائم کریں گے۔‘‘
ہندو جوگیوں کے مجاہدے
میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج بھی جا کر دیکھ لو، دریائے گنگا کے کنارے کتنے ہندو جوگی ہیں جو انتہائی سخت محنتیں اور مشقیں برداشت کر رہے ہیں۔ کسی نے ہاتھ اونچا کیا ہوا ہے تو برسوں سے ہاتھ اونچا کئے کھڑا ہے۔ کسی نے ایک ٹانگ اٹھائی ہوئی ہے، کوئی سانس روک کر بیٹھا ہوا ہے، گھنٹوں اس کی مشق کر رہا ہے۔ وہ یہ ساری محنتیں کیوں کر رہے ہیں ؟ دل میں نیت یہی ہے کہ ہم خدا کو راضی کریں، حق تعالیٰ اس سے خوش ہو گا۔ اب دیکھئے اخلاص تو ہے، لیکن چونکہ وہ عمل سنت کے مطابق نہیں، شریعت کے خلاف ہے، اس لئے یہ سارے مجاہدے بے حیثیت ہیں۔
ایسے لوگوں کی گمراہی کے بارے میں قرآن کریم میں کتنی وضاحت کے ساتھ حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں:
ترجمہ: ’’کہہ دو کہ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں‘‘۔ (سورۃ الکہف، آیات 102 تا 104)
کفار کے معاملے میں تو یہ آیت بہت واضح ہے۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو خود مسلمانوں کے ہر طبقے میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے، جو ایک کام کو نیکی اور اسلام کی خدمت سمجھ کر شروع کرتے ہیں، مگر اس کے عواقب و نتائج پر غور کئے بغیر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ دلدل پر یاد آیا کہ ایک شاعر نے بڑی خوبصورتی سے اس حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔
یہ کہا کہ سورج پر گھر بنانا اور اس پر چھائوں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ پھر اپنے پائوں تلاش کرنا
نکل کے شہروں میں آ بھی جانا چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
بلند و بالا عمارتوں میں پھر اپنے گائوں تلاش کرنا
’’اور سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔‘‘
اس صورت حال کی بہت سی مثالیں ہمارے ملک میں اور پورے عالم اسلام میں مل جائیں گی۔ اس کی تازہ مثال ناموس رسالت پر ہونے والے مظاہرے اور ہڑتالیں ہیں۔ کون مسلمان ایسا ہو گا جو رسول کریمؐ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کو برداشت کرے گا؟ رسول اقدسؐ کی یہ امت تو وہ ہے کہ ایک صحابی کو مشرکین نے قتل کرنے کا ارادہ کیا اور قتل کے سارے سامان مہیا کرنے سے پہلے ان سے کہا کہ قتل کے لئے تیار ہو جائو۔ البتہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں چھوڑ سکتے ہیں، بشرطیکہ تم اس شخص (رسول اقدسؐ) کا ساتھ چھوڑ دو تو انہوں نے قسم کھا کر فرمایا کہ مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ آپؐ کے پائوں میں ایک کانٹا چبھے اور مجھے زندہ چھوڑ دیا جائے۔
الحمد ﷲ! مسلمانوں کی رگوں میں عشق رسولؐ خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ آج بھی اگر کسی عام آدمی سے یہ کہو کہ تم رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ کہہ دو۔ اس کے بدلے میں تمہیں اتنی رقم یا کوئی عہدہ دیا جائے گا، وہ فوراً انکار کر دے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ جوش میں آ کر اس پر حملہ کر دے۔ غازی علم دین شہیدؒ اور ممتاز قادری شہیدؒ کی مثالیں تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔
ملعونہ آسیہ
مسلمانوں کو ملعونہ آسیہ کی رہائی کا فیصلہ سن کر سخت رنج اور صدمہ پہنچا ہے۔ وہ صدمے کی حالت سے ابھی پوری طرح باہر نہیں آئے ہیں۔ آدمی جب کسی بڑے صدمے سے دوچار ہوتا ہے تو رنج و غم کے جذبات اس پر غالب آجاتے ہیں اور اس کو حدود کا خیال نہیں رہتا۔ سب نے دیکھا کہ ان مظاہروں نے کس طرح ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔
اب جبکہ یہ آگ کچھ ٹھنڈی ہو رہی ہے، میں اپنے بھائیوں بہنوں اور ہم وطنوں سے پوری خیر خواہی کے ساتھ التجاء کرتا ہوں کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان نقصانات کا جائزہ لیں، جو ان مظاہروں کی وجہ سے ملک کو اور پورے پاکستان کے باشندوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ یہ اندازہ حضور اقدسؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں لگائیں، جس میں آپ ؐ نے فرمایا:
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمانوں محفوظ رہیں۔‘‘
کتنے لاکھ مسلمان اپنے دفتروں کو نہیں پہنچے۔ کتنی پرائیویٹ گاڑیاں جلائی گئیں، کتنی ٹرینیں مسافروں کو
نہیں لے جا سکیں۔ کتنی فلائٹیں بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں مسلمان اذیت کا شکار ہوئے، کتنے تاجر اپنی دکانیں نہیں کھول سکے، کتنے ٹھیلے والے غریب لوگ جن کا گزر بسر روزانہ آمدنی پر ہوتا ہے، وہ اپنا مال نہیں بیچ سکے۔ حضور اکرمؐ کے اس ارشاد میں مسلمانوں کو اپنے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے بچانے والے کو مسلمان کہا گیا ہے۔ اتنے انسانوں کو تکلیف دینے والے لوگ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ وہ مسلمان کی اس تعریف پر کتنا پورا اترتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ راقم کا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ کسی دینی جماعت سے۔ دین کا ایک غیر اصطلاحی طالب علم ہوں۔ اپنے تمام ہم وطنوں سے خدا کے واسطے درخواست کرتا ہوں کہ دین و دنیا کے بڑے اور حساس مسئلوں پر از خود کوئی اقدام کرنے کے بجائے اہل علم و دانش سے پوچھ کر اقدام کریں۔
حق تعالیٰ ہم سب کو آنحضرتؐ کے احکامات پر عمل کر کے ان سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اب جبکہ عوام کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہو گئے ہیں، امن کی فضا قائم ہو رہی ہے، ٹھنڈے دل کے ساتھ پوری صورت حال سے جو ملک کو نقصان ہوا ہے، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مبصرین کے مطابق ملکی معیشت کو یومیہ آٹھ ارب کا نقصان ہوا ہے، مجموعی طور پر تقریباً پچیس ارب کا نقصان ہو گیا ہے۔ 38 پروازیں بند رہیں اور ہزاروں مسافر ایئر پورٹ پر اس حالت میں رہے کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی میسر نہیں آ سکیں۔ یہی حال ٹرینوں کے بند ہونے سے ہزاروں مسافر پلیٹ فارم پر جیل جیسی صورت حال سے دوچار رہے۔
کئی ہزار کنٹینرز ضروریات زندگی سے بھرے ہوئے شاہراہوں پر کھڑے رہے۔ شہر میں پھلوں اور سبزیوں کی سپلائی نہیں ہو سکی اور اگر ہو بھی جاتی تو دکانیں بند تھیں۔ کس کو سپلائی کرتے؟ گلستان جوہر میں ایک اہم چوک پر آگ لگائی گئی۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ شرپسندوں نے کئی موٹر سائیکلیں جلا دیں۔ میرے پوتے نے خود دیکھا کہ شرپسند لڑکے ایک دو ہوائی فائر کرتے، فوراً ہی دکانوں کے شٹر بند ہونے لگتے اور جیسے ہی پولیس آتی دکانیں کھول لیتے، مظاہرین کے اور ان کے درمیان یہ آنکھ مچولی ہوتی رہی۔
پرنٹ اور سوشل میڈیا اسے حب رسولؐ کا رنگ دیتے رہے، کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ اسے شرپسندوں کی کارروائی قرار دیتے، گلی کوچوں میں ٹھیلے والے منہ مانگی قیمت پر کھانے پینے کی اشیاء بیچتے رہے۔
اب جبکہ جذبات کی آگ راکھ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک خوشی کی خبر یہ آئی ہے کہ ملعونہ آسیہ کا نام E.C.L میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی رہائی کا فیصلہ درست نہیں ہوا۔ اس پورے معاملے پر طائرانہ نظر ڈالنے سے تو لگتا ہے کہ ایک چیونٹی کو پہاڑ سے ٹکرانے کا حوصلہ دینے والے اپنے نہیں، غیر ہیں۔ ان کی ڈور ہلانے والے ہاتھ پاکستان میں نہیں، پاکستان سے باہر ہیں۔ گزشتہ روز یہ خبر بھی ذرائع ابلاغ میں آئی کہ انڈیا نے ملعونہ آسیہ کو پناہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ حق تعالیٰ پاکستان کی ملکی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More