دوحہ/ پشاور (امت نیوز/ نمائندہ امت) افغان طالبان نے جمعہ کو ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس میں شرکت کرنے پر آمادگی ظاہر کردی، تاہم کہا ہے کہ دوحہ دفتر کا وفد روس بھیجنے کا مقصد کسی مخصوص فریق سے مذاکرات کرنا نہیں، بلکہ بحران کا مربوط پُرامن حل تلاش کرنا اور امریکی قبضہ ختم کرانا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے صوبہ فراہ میں ایرانی سرحد کے قریب بڑا حملہ کر کے افغان فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ لڑائی میں30فوجی مارے گئے اور 29 کو اغوا کرلیا گیا، جبکہ نیٹو کےسيکرٹری جنرل ژينس اسٹولٹن برگ غير اعلانيہ دورے پر کابل پہنچ گئے۔ تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کا وفد9 نومبر کو روسی دارالحکومت ماسکو میں افغانستان پر ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت کرے گا۔اس کی تصدیق قطر میں قائم طالبان کے دفتر کی طرف سے کی گئی ہے۔ دوحہ میں طالبان کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق اس کانفرنس میں طالبان کا وفد افغانستان کی صورتحال کے پر امن حل کے لیے اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا۔ علاوہ ازیں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وضاحت کی ہے کہ طالبان وفد افغان امن عمل اور مفاہمتی مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ماسکو کانفرنس میں شرکت کا مقصد کسی مخصوص فریق سے مذاکرات کرنا نہیں ہے بلکہ افغان بحران کا مربوط پُرامن حل تلاش کرنا اور امریکی قبضہ ختم کرانا ہے۔ دریں اثنا افغان امن کونسل اپنا 4رکنی وفد ماسکو بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر چکی ہے۔ روس نے کانفرنس میں پاکستان، ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان سمیت 12ملکوں کو مدعو کیا ہے۔آخری اطلاعات تک امریکہ نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ دوسری جانب افغانستان میں طالبان نے صوبہ فراہ میں ایرانی سرحد کے قریب ضلع پشت کوہ میں واقع افغان فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ لڑائی میں30فوجی مارے گئے، جبکہ 29کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ افغان فوجی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی اڈے سے انکا رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔افغان وزارت دفاع کے ترجمان جاوید احمد غفور نے ہلاکتوں اور اغوا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے ایسا منظم حملہ پہلے کبھی نہیں کیا، اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس کارروائی میں طالبان کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ فراہ کے دارالحکومت کی جانب طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لئے امریکی فضائیہ سے مدد مانگ لی گئی ہے۔ امریکہ نے بھی الزام لگایا ہے کہ صوبہ فراہ پر کنٹرول کیلئے ایران طالبان کی مدد کررہا ہے اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان حکومت اور امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ افغان سیکورٹی اہلکار طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اس لئے ایران کا نام لیا جارہا ہے۔انہوں نے فوجی اڈے سے بھاری تعداد میں ہتھیاروں پر قبضے کا بھی دعویٰ کیا۔ طالبان نے صوبہ غزنی کے مشرقی حصے میں نئی قائم کی جانے والی چوکی پر بھی حملہ کر کے 7فوجیوں اور 6پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔ گورنر غزنی کے ترجمان عارف نوری نے بتایا کہ طالبان نے چوکی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی اہلکاروں کو فوری کمک بھیجی گئی لیکن طالبان نے4بار اس کا راستہ روکا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق غزنی میں جس نئی چوکی پر حملہ ہوا، اسے طالبان کی سپلائی لائن کاٹنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ جبکہ نیٹو کےسيکریٹری جنرل ژينس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ افغانستان کی سربراہی میں امن عمل کا جاری رہنا ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ مجموعی صورتحال سنگین ہے۔ ژينس اسٹولٹن برگ منگل کو غيراعلانيہ دورے پر کابل پہنچے۔ انہوں نے وفد کے ہمراہ افغان صدر اشرف غنی، چيف ايگزيکٹو عبداللہ عبداللہ اور امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر سے بھی ملاقات کی۔