افسران پر ملبہ دال کر بچنے میں مصطفی کمال ناکام-مقدمہ تیار

0

کراچی (اسٹا ف رپورٹر)پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ کا اعتراف کر کے ملبہ کے ایم سی افسران پرڈال کربچنے میں ناکام ہو گئے۔اینٹی کرپشن نے سابق سٹی ناظم ،کے ایم سی اورواٹر بورڈ کے 22سے زائد افسران و ملازمین کیخلاف سرکاری خزانے کو تقریباً 82 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے ،اختیارات کے ناجائز استعمال اورغیرقانونی اقدامات کا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کردی۔تفصیلات کے مطابق پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال جب کراچی کے سٹی ناظم تھے اس وقت محمودآباد کے علاقے میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے مخصوص زمین میں سے تقریباً49 ایکڑ اراضی غیر قانونی طورپر سیاسی مقاصد کے لئےاپنے مختلف افراد کومعاوضے کی مدمیں الاٹ کردی تھی جبکہ مذکورہ زمین سے ملحقہ 33کے ایم سی کی زمین کی بھی چائنا کٹنگ کرکے دے دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر حکومت سندھ کی جانب سے اینٹی کرپشن کو اس معاملے کی انکوائری کرنے اور الزامات ثابت ہونے پر کارروائی کرنے کو کہا گیاتھا۔ اس ضمن میں چند ہفتے قبل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ضمیر عباسی نے مصطفیٰ کمال کو اپنا بیان ریکارڈکرانے کے لئے طلب کیا تھا۔مصطفیٰ ٰکمال سے جو سوالا ت پوچھے گئے ان کا تحریری جواب دینے کیلئے انہوں نےمتعلقہ افسران سے مہلت مانگی تھی۔جس کے بعد مصطفی کمال نے تحریری جوابات اینٹی کرپشن کے متعلقہ حکام کو ارسال کردئیے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق پی ایس پی سربراہ نے کہاہے کہ انہوں نے لائنز ایریا پروجیکٹ کے متاثرین کواچھی نیت کے ساتھ معاوضے کے طورپر ٹریٹمنٹ پلانٹ میں تقریباً 49ایکڑاراضی پر پلاٹ الاٹ کئے اور اس سلسلے میں اس وقت کی سٹی کونسل نے بھی قرار داد پاس کی تھی، تاہم کے ایم سی افسران نے اس وقت انہیں گائیڈ نہیں کیا تھا کہ مذکورہ زمین الاٹ نہیں ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مذکورہ پلاٹ عارضی طورپر الاٹ کئے تھے اب حکومت چاہے تو انہیں خالی کراسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کے ایم سی کی اراضی پر جو چائنا کٹنگ ہوئی ہے اس سے ان کا واسطہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں متعلقہ ذرائع کا کہناہے کہ مصطفی کمال نے تحریری جوابات میں فلاحی مقاصد وغیرہ کے لئے مختص زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ کے ایم سی و دیگر افسران کو غیرقانونی کام میں شامل ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ ایسے منصوبوں کے لئے زمین کے بدلے زمین دی جائے۔ اگر معاوضے کی مد میں زمین دینی بھی تھی تو کے ڈی اے کی سرجانی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں زمین دلواسکتے تھے لیکن اس کے لئے بھی ایک قانونی طریقہ کار اختیار کیاجاتاہے۔ انہوں نے ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے مختص زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ سیاسی مقاصد کیلئے کی کیوں کہ مذکورہ علاقے میں آنے والے اس وقت کے صوبائی حلقے میں متحدہ کے مخالف سابق صوبائی وزیر عرفان اللہ مروت کا سیاسی اثر و رسوخ رہاہے جسے توڑنے کے لئے وہاں اپنے سیاسی کارکنان اور ہمدردوں کو آباد کرکے ووٹ بینک بڑھاناتھا۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے سپریم کورٹ کے احکامات پر مذکورہ انکوائری شروع کی گئی تھی کیونکہ واٹر کمیشن کی نشاندہی پر سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خودبھی مصطفیٰ کمال کو طلب کیا تھا۔ اس لئے یہ معاملہ انتہائی اہم ہے اور اس سلسلے میں دیگر افسران وغیرہ کے بیانات بھی ریکارڈ کئے گئے۔ جس وقت یہ زمین الاٹ کی گئی اگر اس وقت کے حساب سے اس کی فی ایکڑ مالیت ایک کروڑ بھی لگائی جائے تو قیمت 82 کروڑ روپے بنتی ہے جس میں 49 کروڑروپے مالیت کی واٹر بورڈ کی اور 33کروڑ روپے مالیت کی زمین کے ایم سی کی ہے جس کی چائنا کٹنگ کی گئی جبکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے مختص زمین غیر قانونی طورپر الاٹ ہوجانے کے باعث کراچی کے نکاسی آب کا منصوبے ایس تھری مکمل کرنے میں تاخیر ہوئی جو اب تک مکمل نہیں ہوسکا جس کے باعث مذکورہ منصبوے کی لاگت میں 5ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح مصطفی کمال کی جانب سے غیر قانونی طورپر زمین الاٹ کرنے کے باعث مذکورہ مد میں سرکاری خزانے پر 5 ارب روپے کا بوجھ بھی بڑھا ہے۔ اینٹی کرپشن کے متعلقہ افسران نے انکوائری مکمل کرکے اس ضمن میں چیئرمین اینٹی کرپشن کو سمری ارسال کردی ہے ، جس میں مصطفی کمال سمیت کراچی واٹر بورڈ کے اس وقت کے ایم ڈی، انجینئر، کے ایم سی کے ڈائریکٹر لینڈسمیت 27 سے زائد کے ایم سی اور واٹر بورڈ کے افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ ذرائع کا کہناہے کہ مقدمے میں اعلیٰ افسران کے ساتھ سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں ۔ اس لئے یہ معاملہ منظوری کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ تک جائے گا جس کے بعد ہی مقدمہ درج کرکے کارروائی کی جائے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More