بابا جی کے سرخ و سپید چہرے پر پڑی جھریوں نے کئی دہائیوں کے روز و شب چھپا رکھے تھے، ان کے لرزتے ہاتھ بتا رہے تھے کہ اب ان کے ہاتھ منہ زور زندگی کی لگامیں تھامنے سے عاری ہیں، جس کی انہیں کوئی خاص پروا بھی نہیں تھی، وہ جاڑے کی نرم دھوپ میں برف سے بالوں پر سفید ٹوپی پہنے آرام کرسی ڈالے بیٹھے تھے، ان کے کاندھوں پر نفیس کشمیری چادر پڑی ہوئی تھی، ان کی گود میں ایک خوبصورت ایرانی بلی آنکھیں بند کئے دھوپ کے مزے لے رہی تھی، بابا جی کانپتے ہاتھوں سے اسے سہلا رہے تھے۔
’’ابا جی! یہ سیلانی صاحب ہیں، وہ جو اخبار میں نہیں لکھتے دیکھتا چلا گیا‘‘ توقیر حیات لون نے ابا جی کو مخاطب کیا، انہوں نے دائیں ہاتھ سے پیشانی پر چھجا بنایا اور ناک کی ڈھلوان پر سرک کر آنکھوں سے دور ہونے والی عینک اوپر کرکے سیلانی کا سر تا پا جائزہ لیتے ہوئے اپنا کپکپاتا ہاتھ مصافحے کے لئے آگے بڑھا دیا۔
’’اچھا، اچھا، مرحبا مرحبا، خوش آمدید بھئی خوش آمدید بیٹا کیسے ہو طبیعت تو ٹھیک ہے ناں اور یہ تم نے سوئٹر کیوں نہیں پہنی ہوئی، سردی تو شروع ہوگئی ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں بڑی اپنائیت تھی۔
’’وہ جی، سردیاں انجوائے کر رہا ہوں ناں، اس لئے سوئٹر نہیں پہنی۔‘‘
’’کوئی گرم جیکٹ، کوٹ سوئٹر پہن لو، احتیاط اچھی بات ہے، اچھا یہ بتاؤ کہ آپ کب سے اس لکھنے لکھانے کے سلسلے میں ہیں؟‘‘ ابا جی نے سیلانی کی جانب دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ان کی گود میں لیٹی ہوئی بلی کو سیلانی کی مداخلت اچھی نہیں لگی تھی، اس نے باریک سی آواز میں میاؤں کرکے احتجاج کیا اور انگڑائی لے کر ابا جی کی گود سے اتر گئی۔
’’جی کالم لکھتے ہوئے تقریباً بیس سال تو ہونے کو ہوں گے۔‘‘
’’اچھا اچھا، میں چار سال پہلے کراچی آیا تھا، وہیں میری آنکھوں کا آپریشن بھی ہوا تھا، وہیں میں نے آپ کے کالم پڑھے تھے، پھر میں یہاں آگیا، دراصل میں یہاں سے دور نہیں رہ سکتا، یہاں میری جنت کی ہوائیں آتی ہیں۔‘‘
’’جنت‘‘ سیلانی نے تو قیر صاحب کی طرف دیکھا، وہ انہماک سے اپنے دادا کی گفتگو سن رہے تھے۔ سیلانی کو متوجہ پا کر کہنے لگے: ’’ابا جی کشمیر کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
’’کشمیر اس دنیا کی جنت ہی تو ہے، جنت کو اور میں کیا اور کیوں کچھ کہوں۔‘‘ ابا جی نے یہ کہہ کر توقیر سے کہا: ’’مہمان کے لئے کچھ ناشتے…‘‘
’’جی ابا جی! کہہ دیا ہے، ابھی آرہا ہے۔‘‘
’’کیا آرہا ہے؟‘‘ ابا جی نے پوچھا۔
’’ابھی توچائے ناشتے کا کہا ہے۔‘‘ توقیر صاحب نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’یہ بتاؤ کہ انگریزی چائے یا کشمیری چائے؟‘‘
’’ابا جی! دونوں چائے کہہ دی ہیںجو سیلانی صاحب پسند کریں۔ ‘‘
’’میں تو کشمیری چائے ہی پیوں گا،وہ بھی نمک والی۔‘‘سیلانی کی فرمائش پر ابا جی خوش ہو گئے اور توقیر سے کہنے لگے:’’وہ بڑی والی باقر خانیاں بھی ساتھ لانا۔‘‘
توقیر حیات لون ٹیلی کام انجینئر ہیں،راولپنڈی ہی کے رہائشی ہیں،یہیں پلے بڑھے، پھرگردش دوراں انہیں کراچی لے آئی، وہاں ملازمت کرتے رہے اور پھر اسلام آباد آگئے۔ وہ سیلانی کے خاموش قاریوں میں سے ہیں، کبھی کال کی نہ ملاقات،اب انہیں سیلانی کا اسلام
آباد منتقل ہونے کا پتہ چلا تو جانے کہاں سے سیل نمبر لے کر سیلانی سے رابطہ کیا اورکہا کہ ’’ہمارے دادا ابا کوجب سے آپ کی اسلام آباد آمد کا پتہ چلا ہے، وہ کئی بارملنے کا کہہ چکے ہیں،اب آپ جس دن بھی کہیں میں انہیں لے آؤں گااور اگر آپ ہمارے گھر تشریف لائیں، تو یقین کریں، دل سے خوشی ہوگی۔‘‘
’’میں کس طرح آپ کے دادا ابا کو زحمت دے سکتا ہوں، میں ہر لحاظ سے چھوٹا ہوں، مجھے ہی ان سے ملنے کے لئے آنا چاہئے۔ ‘‘
’’بسم اللہ جناب، اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہوگی، میں آپ کو گھر سے لے لوں گا اور گھر پر چھوڑ بھی آؤں گا، بس آپ کل تیار رہئے گا۔‘‘
دوسرے دن توقیر حیات دس بجے سیلانی کو لینے کے لئے پہنچ گئے۔ پینتیس سالہ توقیر درمیانی قد وقامت کاگورا چٹا لون کشمیری نوجوان ہے، ہنس مکھ توقیر حیات اپنے دادا ابا کا چہیتا اور لاڈلابھی ہے۔،توقیر بتانے لگا کہ ان کے داد ا کشمیری مہاجر ہیں، انہوں نے کس طرح ہجرت کی، یہ داستان ناقابل یقین ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ آگ اور خون کا دریا پار کرنا تو ابا جی یعنی ہمارے دادا جی نے واقعی آگ او ر خون کا دریا پارکیا تھا،وہ شاید اپنی یہ کہانی سنانا چاہتے ہیں یا کوئی بات کرنا چاہتے ہیں، انہوںنے مجھ سے کہا تو میں انکار نہ کرسکا اور آپ کو زحمت دے دی۔
’’زحمت کی بھلا کیا بات، میرے لئے تو خوشی کی بات ہو گی کہ ایک سچے کھرے پاکستانی سے مل رہا ہوں۔‘‘
توقیر حیات کا مری روڈ کے قریب کہیں گنجان آباد علاقے میں گھر ہے، راولپنڈی میں سڑکوں پر اچھا خاصا رش ہوتا ہے اور زیادہ تر کراچی ہی کی طرح بے ہنگم ٹریفک دکھائی دیتا ہے، سیلانی کی رہائشگاہ سے مری روڈ کافاصلہ زیادہ نہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں اچھا خاصا وقت لگ گیاتھا، بہرحال وہ اب ابا جی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
ابا جی سیلانی کی جانب متوجہ ہوئے اور کہنے لگے:’’ اچھا تو سیلانی صاحب میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’جی جی ضرور‘‘
’’چھ نومبر سے کچھ یاد آتا ہے۔‘‘
’’چھ نومبرہم ہم ہم ہم ہم ہم…اتنا تو پکا ہے کہ کوئی قومی دن تو نہیں ہے۔ ‘‘
ابا جی کا لرزتا ہاتھ اٹھا اور انہوں نے اپنا زانو پیٹ لیا… ’’یہ قومی نہیں، انسانی تاریخ کے ایک سانحے کا دن ہے، اس سانحے کا جسے لوگ فراموش کر بیٹھے ہیں، بھلا بیٹھے ہیں۔‘‘ سیلانی خاموش رہا، واقعی اسے علم نہیں تھا کہ ابا جی کا اشارہ کس جانب ہے۔
’’یوم شہداء جموں سے کچھ یاد آتا ہے؟‘‘ ابا جی نے عینک کے موٹے موٹے شیشوں سے سیلانی کے چہرے
پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔
’’زیادہ تو نہیں، بس اتنا پتہ ہے کہ کشمیریوں پر ڈوگرہ فوج نے گولی چلائی تھی۔‘‘
’’اتنا بھی بہت ہے۔‘‘ ابا جی خوش ہوگئے اور توقیر سے کہنے لگے: میری وہ ڈائری لے کر آنا، توقیر نے سعادت مندی سے جی اچھا جی کہا اور سامنے کمرے میں گھس گیا، واپسی پر اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی نیلی رنگ کی ڈائری تھی۔
’’اسے کھولو اور آخری صفحہ نکالو، وہ جو مڑا ہوا ہے ناں۔‘‘ ابا جی نے لرزتی انگلی سے اشارہ کیا، ان کی آواز حیرت انگیز طور پر خاصی گرجدار تھی، ہاتھوں میں رعشہ کے سوا انہیں کوئی عارضہ نہ تھا، حتیٰ کہ بلڈ پریشر تک ٹھیک تھا۔ ابا جی سیلانی سے کہنے لگے: ’’میں نے تین سال پہلے یہ لکھنا شروع کیا تھا اور میرا خیال ہے آپ دو سو باسٹھویں ہو، جس سے میں نے درست جواب دیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ابا جی نے توقیر سے کہا ’’ڈائری چیک کرو، میں ٹھیک ہی کہہ رہا ہوں ناں۔‘‘
’’جی ابا جی، بالکل ٹھیک یہاں 261 ہی لکھا ہوا ہے۔‘‘
’’تو سیلانی صاحب آپ دو سو باسٹھویں ہو گئے، ان دو سو باسٹھ لوگوں میں سے صرف سترہ نے درست جواب دیا، اکیس کو اتنا ہی معلوم تھا جتنا آپ کو معلوم ہے، باقی کسی کو خبر ہی نہیں کہ چھ نومبر کو کیا ہوا تھا، سیلانی صاحب! کلیجہ منہ کو آتا ہے، دو لاکھ کشمیری کاٹ کر پھینک دیئے گئے تھے…‘‘
’’بزرگو! کیا کہہ رہے ہیں آپ، دولاکھ کشمیری…؟!‘‘ سیلانی کی آنکھوں میں شدید حیرت تھی۔
’’بالکل اور میں اس قتل عام کا عینی شاہد ہوں، میں نو برس کا تھا، میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ہمیں بسوں سے اتار اتار کر گولیاں ماری گئی تھیں اور بہنوں، بیٹیوں کو کھینچ کر ایسے پیچھے پھینکا گیا جیسے کوئی سامان کا تھیلا پھینکتا ہے، انہیں یہ ڈوگرے اور سکھ بھنبھوڑتے ہوئے لے گئے تھے، میرے سامنے کتنی ہی عورتوں نے پہاڑ سے چھلانگ لگا کر عزت بچالی تھی…‘‘ یہ سب بتاتے ہوئے لرزیدہ ہاتھوں کی طرح ابا جی کی آواز بھی لرزنے لگی تھی اور سیلانی بت بنا اس بزرگ کی گواہی سن رہا تھا۔
’’خبریں تو آنا شروع ہوگئی تھیں کہ ڈوگرہ فوج نے مسلمانوں پر ہتھیار اٹھا لئے ہیں، کانگریس بھی شہہ دے رہی ہے، ہم کشمیریوں نے طے کر لیا تھا کہ ہم نے پاکستان سے ملنا ہے، قائد اعظم کے پاکستان میں رہنا ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم یہاں اکثریت میں ہیں، ہم کیوں ہندوستان کے ساتھ رہیں، یہی تقسیم کا فارمولا بھی تھا، لیکن انگریز نے بدمعاشی کی، وہ ہندوؤں کے ساتھ مل گئے تھے، ہم جموں میں چوک سارباں کے قریب ایک محلے میں رہائش پذیر تھے، میں اپنے بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھا، تین بہنیں اور ہم دو بھائی تھے، میں سب سے چھوٹا تھا، والد صاحب ایک براہمن کے پاس منشی تھے، انہیں حساب کتاب میں بڑی مہارت تھی، فارسی اہل زباں کی طرح بولتے تھے… تو میں بتا رہا تھا کہ تقسیم ہو چکی تھی، اُدھر ہندوستان تھا اور اِدھر پاکستان، کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ ملنے کے لئے تحریک چلائی، مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج نے توپیں دم کرنا شروع کر دیں، بندوقوں کے گھوڑے چڑھا لئے، پھر کانگریس نے ہندو مہا سبھا اور ایک اور تنظیم تھی، ان کی ابھی بھی ہے، وہ کیا نام ہے توقیر ان بدبختوں کا؟‘‘
’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ توقیر نے جھٹ سے جواب دیا۔
’’ہاں، یہی یہی انہوں نے تو حد پار کر دی، انہوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر مسلمان آبادیوں میں گھس جانا ہوتا تھا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو ترشولوں میں اٹھا لیتے، مسلمانوں کی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے، پھر بعد میں ان کی لاشیں ہی ملتیں، جموں میں زبردست تحریک چلی، چوک سارباں اور ریزیڈنس روڈ کا محاصرہ کر لیا گیا تھا، ہم نے بھی مورچے بنا لئے، جس کے پاس جو ہتھیار بھی تھا، وہ لے کر مورچہ بند ہوگیا، پیچھے ہم بچے اور عورتیں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا لگا کر مجاہدوں کا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے، فوج نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح چوک سارباں یا ریزیڈنس روڈ میں گھس کر بغاوت کچل دے، لیکن ان کی ایک نہیں چلی، یہ دیکھ کر انہوں نے چال چلی اور اعلان کرنا شروع کردیا کہ مہاراجہ مان گیا ہے، جو پاکستان جانا چاہتا ہے، انہیں فوج حفاظت سے لے کر جائے گی، ہم کشمیری اس دھوکے میں آگئے، یہ اعلان سنتے ہی سب خوشی سے جھوم گئے، بیچ میں بڑوں کو ڈالا گیا تھا، سب کشمیری ایک میدان میں جمع ہو گئے، پانچ نومبر کو پہلا قافلہ پاکستان کے لئے روانہ کیا گیا، ٹھیک سے یاد نہیں، ستّر اسّی لاریاں اور ٹرک تھے، جن پر بھیڑ بکریوں کی طرح کشمیریوں کو لاد دیا گیا، انہیں سوچیت گڑھ کے راستے سیالکوٹ پہنچانا تھا، قافلہ روانہ ہوا، جموں سے چند میل ہی آگے پہنچے تھے کہ منصوبے کے مطابق سکھوں اور ہندو بلوائیوں نے حملہ کر دیا، عورتیں لڑکیاں چھین کر لے گئے، باقی جو سامنے آیا اسے کاٹ ڈالا، کہتے ہیں صرف تین چار سو لوگ ہی بچ پائے تھے، جو بارڈر پہنچے، دوسرے دن چھ نومبر کو ایک دوسرا قافلہ روانہ کیا گیا اور اس کے ساتھ بھی یہی خون کی ہولی کھیلی، اس قافلے میں سے تو صرف تین زخمی کشمیری ہی سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے، یہ دو تو بڑے بڑے واقعات تھے، باقی جو قتل عام ہوتا رہا، اس کا حساب نہیں، اگست سینتالیس سے اکتوبر تک لگ بھگ تین لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہوئے اور سب سے زیادہ قتل عام پانچ اور چھ نومبر کو ہوا تھا، میں لاشوں میں دب گیا تھا، ڈر کے مارے مجھے سانپ سونگھ گیا تھا، میں رات اندھیرا پھیلنے تک لاشوں کے نیچے دبا پڑا رہا، میں سانس بھی ایسے لے رہا تھا کہ ذرا سا بھی ہلا تو کسی کو پتہ چل جانا ہے، خوف سے میرے آنسو بھی نہیں نکل رہے تھے، جب اندھیرا ہوا تو میں سرکتا ہوا وہاں سے کسی نہ کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوا اور کہیں جا کر چھپ گیا، بعد میں جنگل کی طرف بھاگ گیا اور کتنے ہی دن وہاں چھپا رہا تھا، بعد میں ایک قافلے کے ساتھ سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوا، وہاں میاں شفیع نامی بزرگ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مجھے اپنا بیٹا بنا لیا، مجھے نہیں پتہ کہ میری تینوں بہنیں کہاں گئیں، میری بڑی بہن سلیمہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، وہ میرے بغیر روٹی بھی نہیںکھاتی تھی، میری ماں…‘‘ ابا جی کی آواز لرزنے لگی۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں طغیانی آگئی، ان کے اشک چہرے کی جھریاں عبور کرکے ان کی سفید داڑھی میں کہیں روپوش ہونے لگے۔ ابا جی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے۔ توقیر نے انہیں آگے بڑھ کر دلاسہ دیا، فوراً پانی کا گلاس بھر کر ان کے منہ سے لگایا۔ سیلانی نے بھی کوشش کی کہ وہ انہیں دلاسہ دے، لیکن اس کی آواز حلق ہی میں جیسے بیٹھ گئی، وہ کچھ نہ کہہ سکا، وہ اس انسان کو تسلی دینے کے لئے کہاں سے الفاظ لاتا، جس نے پورا گھر کھو دیا ماں باپ بہن بھائی کچھ بھی تو نہ بچاتھا،ابا جی کافی دیر تک روتے رہے اور سیلانی سر جھکائے بیٹھا اس افسردہ ماحول کا حصہ بنا رہا، آس پاس پھیلی خاموشی ابا جی ہی کی لرزتی آواز نے ختم کی، وہ کہنے لگے:
’’ڈوگرہ فوج کے قتل عام کی خبروں پر ڈپٹی کمشنر جب حالات جاننے باہر نکلے تو انہیں بھی قتل کر دیا گیا تھا، جموں میں اتنا خون شاید ہی کبھی بہایا گیا ہو اور ہمیں آج یاد ہی نہیں، ہمیں پتہ ہی نہیں کہ یوم شہداء جموں کیا ہے، اس روز کیا ہوا تھا، یہ بتانا کس کی ذمہ داری ہے، یہ کس کا فرض ہے، آج بچوں کو کارٹون دیکھنے ہیں، لڑکی لڑکے موبائلوں میں لگے رہتے ہیں، کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں ہے کہ وہ جموں کے شہیدوں کے لئے تیس سیکنڈ کی دعائے مغفرت ہی پڑھ لے، کہیں تو کوئی قومی سطح کا پروگرام ہو، صدر، وزیر اعظم آئیں اور اس سانحے پر پڑی گرد ہٹائیں اور نئی نسل کو خبر ہو کہ دو لاکھ کشمیری کیسے کاٹ کر پھینک دیئے گئے تھے۔‘‘ ابا جی کی افسردگی کی خبر جانے ان کی بلی کو کیسے ہوگئی، وہ میاؤں میاؤں کرتے ہوئے آئی اور ابا جی کے پاؤں سے اپنا جسم رگڑ رگڑ کر اپنی بے چینی کا اظہار کرنے لگی، توقیر حیات نے بلی اٹھا کر ابا جی کی گود میں ڈال دی، ابا جی اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کی پشت سہلانے لگے، فضا میں پھیلی خاموشی بوجھل سے بوجھل ہوتی چلی گئی، دو لاکھ کشمیریوں کا خون بھلا دینے والی نسل کے سیلانی کے پاس شرمندگی کے سوا کچھ نہ تھا، ہمیں واقعی خبر نہیں، ہمیں واقعی علم نہیں کہ چھ نومبر کو کیا قیامت بپا ہوئی تھی، سیلانی ندامت سے لبریز یہ خاموشی لئے احترام اور عقیدت سے سانحۂ جموں کے بوڑھے گواہ کو عقیدت واحترام سے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔