شاعر ختم نبوت سید امین گیلانیؒ اپنی جیل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ایک دن جیل کا سپاہی آیا اور مجھ سے کہا: آپ کو دفتر میں سپرنٹنڈنٹ صاحب بلا رہے ہیں۔ میں دفتر پہنچا تو دیکھا کہ والدہ صاحبہ مع میری اہلیہ اور بیٹے سلمان گیلانی کے، جس کی عمر اس وقت سوا، ڈیڑھ سال تھی، بیٹھے ہوئے ہیں۔
والدہ مجھے دیکھتے ہی اٹھیں اور سینے سے لگایا، ماتھا چومنے لگا۔ حال احوال پوچھا، ان کی آواز گلو گیر تھی۔ سپرنٹنڈنٹ نے محسوس کرلیا کہ وہ رو رہی ہیں۔ میرا بھی جی بھر آیا، آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر سپرنٹنڈنٹ نے کہ اماں جی! آپ رو رہی ہیں؟ بیٹے سے کہیں (ایک فارم بڑھاتے ہوئے) کہ اس پر دستخط کردے تو آپ اسے ساتھ لے جائیں۔ ابھی معافی ہوجائے گی!
میں ابھی خود کو سنبھال رہا تھا کہ اسے کچھ جواب دے سکوں۔
اتنے میں والدہ صاحبہ تڑپ کر بولیں کیسے دستخط؟ کہاں کی معافی؟
میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایسے دس بیٹے حضور اقدسؐ کی عزت پر قربان کردوں۔ میرا رونا تو شفقت مادری سے ہے۔ یہ سن کر سپرنٹنڈنٹ شرمندہ ہوگیا اور میرا سینہ ٹھنڈا ہو گیا۔
مشکوٰۃ شریف کتاب الکرامات میں ہے کہ حضرت سفینہؓ روم میں گرفتار ہوگئے۔ یہ حضور نبی کریمؐ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ دور فاروقیؓ میں جب لشکر اسلام، روم کی زمین میں پہنچا، ان کو قید خانے میں کسی طرح یہ خبر پہنچی کہ اس ملک میں لشکر اسلام آیا ہوا ہے۔ وہ موقع پاکر راتوں رات قید سے بھاگ نکلے۔ مگر راستے سے واقف نہ تھے، نہ یہ جانتے تھے کہ لشکر کہاں ہے؟ راستہ میں بھاگ جا رہے تھے کہ سامنے شیر آگیا۔ حضرت سفینہؓ نے اس سے فرمایا کہ ’’اے شیر تو جانتا ہے کہ میں حضور خاتم النبیینؐ کا غلام ہوں اور راستہ بھول گیا ہوں۔‘‘ شیر یہ سن کر دم ہلاتا ہوا ان کے آگے آگے چل دیا۔ یہاں تک کہ لشکر تک پہنچا دیا اور پھر ہم … ہم … کرتے واپس چلا گیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ جانور بھی نبی کریمؐ کے غلاموں کو پہچانتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ ہم بھی غلامان محمدؐ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر کبھی ہمارے سامنے کوئی شیر آجائے تو کیا ہم اسے اس حیثیت سے اپنا تعارف کرواسکتے ہیں؟ یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا چاہئے۔ (گلدستہ واقعات)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post