آج یوم ِاقبالؒ ہے۔ آج اس شاعر کا جنم دن ہے جس نے کہا تھا:
’’مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ‘‘
کیا علامہ اقبالؒ ایک شاعر تھے؟ اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ بھی ہو سکتا ہے، مگر اس سوال کا صحیح جواب یہ ہے ’’علامہ اقبال ایک شاعر بھی تھے۔‘‘
اصل میں علامہ اقبالؒ ایک شاعر سے کہیں بڑے تھے۔ ان کے لیے شاعری منزل نہیں تھی۔ ان کے لیے شاعری راستہ تھی۔ ان کی منزل کوئی اور تھی۔ وہ ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم عالم بھی تھے۔ مگر یہ بھی ان کا ادھورا تعارف ہے۔ ان کا مکمل تعارف کیا ہے؟ وہ کیا تھے؟ وہ کون تھے؟ اس سوال کی جستجو میں وہ خود بھی بھٹکتے رہے۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش میں وہ کہاں کہاں نہیں گئے؟ اس سوال کی تلاش میں انہوں نے کیا کیا نہیں دیکھا! کبھی اس تلاش کے دوران وہ اس مقام پر رک گئے، جس مقام کے بارے میں انہوں نے لکھا:
’’آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی کماند ادھر
نہ جانے اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں‘‘
اس سوال کے جواب میں وہ یورپ بھی گئے اور یورپ کی سرد صبحوں کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا:
’’زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر سی تیزی
مگر آ کے لندن میں مجھ سے سحر خیزی نہ گئی‘‘
علامہ اقبالؒ ملک ملک، شہر شہر، صحرا صحرا اور دریا دریا بھٹکتے رہے۔ وہ اس تلاش میں آخر تک نہ تھکے۔ مگر ان کو کہیں بھی اس سوال کا جواب نہیں ملا۔ اس لیے انہوں نے کہا:
’’ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں‘‘
رومی سے لے کر رازی تک اور شیکسپیئر سے لے کر نٹشے تک وہ شاہین کی طرح ہر علمی اور ادبی کتاب کو اپنے پنجوںمیں لے کر اڑے۔ مگر اس بے چین روح کو کہیں بھی ایسا آشیانہ نظر نہیں آیا جہاں وہ قیام کرتی۔ اس لیے علامہ اقبال کی پوری زندگی ایک کسی سفر کی مانند کٹی۔ وہ سفر جس کی منزل ان کے دل میں تھی۔ اس بات کو تصوف کا الجھا ہوا فلسفہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے، مگر علامہ اقبال فلسفی ہوتے ہوئے بھی اپنی ذات میں فلسفی نہیں تھے۔ فلسفہ ان کی ذات کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا اور بس!
میں کوئی محقق نہیں ہوں۔ اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات کس نے کہی تھی کہ وہ ’’حکیم الامت‘‘ تھے۔ مگر جس نے بھی یہ بات کہی، اس نے روح اقبال میں جھانکا ضرور تھا۔ اگر وہ امت کے حکیم نہ ہوتے تو کیوں کہتے:
’’دلِ مردہ دل نہیں اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض ِ کہن کا چارہ‘‘
ضربِ کلیم کی یہ غزل ایک ہدایت بھی ہے اور ایک حکم بھی ہے۔ اگر ہم ساری دنیا کوچھوڑ کر صرف اقبال کی اس غزل پر فوکس کریں تو اس ملک کے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ہم کبھی امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں اور ہم کبھی چین کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ ہم کبھی آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کرتے ہیں اور کبھی اس سعودی عرب کے سامنے اپنی جھولی پھیلاتے ہیں، جس کے بارے میں اقبال نے لکھا ہے:
’’کیا خوب امیر فیصل کو سنّوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی پر دل کا حجازی بن نہ سکا‘‘
ہمارے موجودہ وزیر اعظم جو جذبے اور حقیقت کے درمیاں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ وہ کبھی روس کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی ملائیشیا کے مہاتیر محمد سے بات کرتے ہیں۔ وہ اڑنا چاہتے ہیں، مگر حالات کے جال میں اپنے آپ کو بہت پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ جو کچھ کرتے ہیں اور جو کچھ سوچتے ہیں، ان تینوں باتوں میں بڑا تضاد ہے۔
عمران خان کو یہ بات سمجھ میں اب تک نہیں آئی کہ وہ اس الجھن سے کس طرح نکلیں؟ عمران خان کی اردو اچھی نہیں ہے۔ عمران خان کو فارسی اور عربی پر بھی عبور نہیں ہے۔ مگر عمران خان میں وہ جذبہ ہے، جس جذبے کی فکر اقبال کی نظر میں قدر ہے۔
عمران خان کو سب سے ملنا چاہئے۔ جس طرح وہ سعودی حکمرانوں سے ملے اور اس کے بعد وہ چین کی حکومت سے ملے۔ اب وہ دیگر ممالک سے بھی ملیں گے۔ مگر منی بیگم نہ معلوم کس شاعر کی شاعری گاتے ہوئے کہتی ہیں:
’’رنگ و عشرت سے ملو
عیش و راحت سے ملو
نور و نکہت سے ملو
سب سے فرصت میں ملو
سب سے مل آؤ تو اک بار
مرے دل سے ملو‘‘
عمران خان سب سے مل آئے۔ انہوں نے سب کی باتیں سنیں۔ انہوں نے سب کا رویہ دیکھا۔ اب اسے علامہ اقبالؒ سے بھی ملنا چاہئے۔
یہ ایک بیمار ملک ہے۔ اس کو بیمار کرنے میں سب سے بڑا کردار اس ملک کے ان حکمرانوں کا ہے جو کبھی جارج بش سے ملے اور کبھی اوباما سے ملے، مگر انہوں نے کبھی یہ تکلیف اٹھانا گوارا نہیں کی کہ وہ علامہ اقبال سے ملیں۔ علامہ اقبال سے ملنے کے لیے انہیں کسی درخواست کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس ملاقات کے لیے انہیں مزار اقبال پر جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ علامہ اقبال کے کسی بھی عاشق کو بنی گالہ کا مہمان بنا سکتے ہیں اور اس سے سن سکتے ہیں بیمار ملک کو صحت مند بنانے کا نسخہ!
اگر عمران خان اپنی بے پناہ مصروفیت سے ایک پل نکال کر علامہ اقبال سے ملیں گے تو وہ علامہ اقبال انہیں پہلی ملاقات میں بتائیں گے:
’’خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں!‘‘
ہم کو سب خبر ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ مگر جاننا کافی نہیں ہے۔ ہم کو خبر سے آگے بڑھنا ہے۔ اس جذبے کے ساتھ، جس جذبے کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے:
’’لاؤں وہ تنکے کہاں؟ آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے‘‘
ہم کو ڈالر کی بھی ضرورت ہے، مگر ڈالر سے زیادہ ہمیں اس جذبے کی ضرورت ہے، جو علامہ اقبالؒ کے کلام میں جا بہ جا بکھرا ہوا ہے۔ وہ جذبہ اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ کیوں کہ اس جذبے میں وہ توانائی ہے، جو ان حالات کو تبدیل کر سکتی ہے۔
پاکستان کو معاشی تنگی کا سامنا ہے، مگر وہ معاشی تنگی تبدیل ہو سکتی ہے صرف اس جذبے کی معرفت جس جذبے کا پتہ ’’بال جبریل‘‘ میں ہے۔ جس جذبے کا پتہ ’’ضرب کلیم‘‘ میں ہے، جس جذبے کا پتہ ان اشعار میں ہے، جن اشعار میں شعلے بھڑکتے ہیں۔
ہم پوری دنیا کے سامنے ایک تماشہ ہیں۔ ہم سب سے پوچھتے ہیں کہ ’’آخر کیا کریں؟‘‘ مگر افسوس صد افسوس! ہم اپنے مرض کہن کا علاج اس علامہ اقبال سے نہیں پوچھتے جو ’’حکیم الامت‘‘ ہیں۔
ہم سب سے ملے۔ ہم نے سب کی باتیں سنیں۔ سب نے ہم کو ڈرایا۔ کسی نے دھمکایا۔ کسی نے خوف اور تشویش میں مبتلا کیا۔ ہم سے سب نے اپنی اپنی بات کی۔ ہر بات میں ایک مفاد تھا۔ ہر بات میں ایک دھوکہ تھا۔ ہر بات میں پنہاں کوئی مفاد تھا۔
اب سب باتوں کو فراموش کرکے ہمیں علامہ اقبال سے ملنا چاہئے۔ اس عالم اور اس عاشق سے ملنا چاہئے، جو اس ملک کا مصور تھا۔ جس نے اپنے تخیل کے کینوس پر اس ریاست کی تصویر بنائی تھی۔ جس ریاست کو ایک بھکاری نہیں، بلکہ ایک مالک بننا تھا۔ علامہ اقبالؒ کے کلام میں وہ خودی بھرپور انداز سے موجود ہے، جس خودی کو کھو کر کوئی چیز اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ خودی انا نہیں ہے۔ خودی اور انا میں بہت فرق ہے۔ انا اور چیز ہے اور خودی اور چیز ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کبھی انا کی بات کو آگے نہیں بڑھایا۔ علامہ اقبال نے کبھی انا کے گن نہیں گائے۔ علامہ اقبال جانتے تھے کہ انا انسانوں کے درمیان فاصلے پیدا کرتی ہے۔ جب کہ خودی انسان کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ جوڑتی ہے۔ خودی وجود میں روح کا کردار ادا کرتی ہے۔ جس فرد، جس معاشرے اور جس ملک میں خودی نہیں، وہ فرد، وہ معاشرہ اور وہ ملک کھوکھلا ہے۔ خودی سے خالی وجود مردہ وجود ہے۔ اس ملک کی خودی کو ختم کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں نے جو غلطیاں کی ہیں، ان غلطیوں کو درست کرنے، ملک کی کھوئی ہوئی خودی کو تلاش کرنے اور اس خودی کی خاک میں چنگاری تلاش کرکے اسے پھر سے شعلوں میں تبدیل کرنے سے ہی وہ ملک اس مقام پر پہنچ سکتا ہے، جس مقام پر اس ملک کو علامہ اقبالؒ دیکھنا چاہتے تھے۔
ہمارے ملک کو ڈالر کی نہیں، ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال سے بہتر ڈاکٹر اور کوئی نہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری کو پڑھنے اور واہ واہ کرنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہم کو اقبال کی شاعری میں ڈوبنا ہوگا۔ ہم کو اقبال کی شاعری میں ڈوب کر ابھرنا ہوگا۔ جب تک پاکستان کا پرچم شاہین کی طرح فضا میں اپنے پر نہیں پھیلائے گا، تب تک یہ ملک وہ پرواز نہیں کر پائے گا، جس پرواز کے لیے یہ پرندہ پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کو کلام اقبال سے سجانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کو کلام اقبال پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال کے افکار پر عمل کرنا آسان نہیں، مگر اقبال کے افکار پر عمل کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ ہم نے بہت سارے نسخے آزمائے ہیں۔ اب ہمیں حکیم الامت کے نسخے کو آزمانا چاہئے۔
’’ساقی نامہ‘‘ ایک چھلکتے ہوئے ساغر کی طرح ہمارے پیاسے ہونٹوں تک آنا چاہتا ہے اور ہمارے پیاسے ہونٹ اس ساغر کی معرفت خودی کی خرد پا سکتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post