وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ یمن کا تنازع طے کرانے کے لئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا۔ ان کے خیال میں اس تنازع کو فوجی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔ یمن کے سفیر محمد مطاہر الشعبی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یمنی مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق حل کرانے کی غیر متزلزل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ یمن تنازع کی وجہ سے علاقائی اور عالمی امن متاثر ہو رہا ہے، جبکہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں۔ پاکستان یمنی صدر عبد الرب منصور ہادی کی جائز حکومت بحال کرانے کی حمایت جاری رکھے گا۔ یمن تنازع محض سیاسی مخالفت یا گروہی کشیدگی کے باعث شروع نہیں ہوا، بلکہ اس کے پیچھے مسلک کا جھگڑا ہے۔ 2014ء میں شیعہ اکثریت پر مشتمل حوثی باغیوں نے صنعا پر قبضہ کر لیا تو یمن میں صورتحال سخت کشیدہ ہوگئی۔ 2015ء میں سعودی عسکری اتحاد نے حوثی بغاوت کو کچلنے کیلئے مسلح کارروائیاں کیں، جس کی وجہ سے یمن کا بحران اور بھی شدت اختیار کر گیا۔ بحران کے باعث یمن کے شہری سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ 2004ء میں یمن کے حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی نے ملک میں مسلح بغاوت کا آغاز کیا تو حکومت اور باغیوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے، آہستہ آہستہ اس تنازع نے شدت اختیار کر لی۔ باغی حوثی رہنما ملک میں سیاسی اصلاحات کے نام پر بے چینی اور کشیدگی پھیلاتے رہے۔ سن دو ہزار چار سے دو ہزار بارہ تک شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 2014ء میں حوثی باغیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر کے اس کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ اگلے سال ایران نواز شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کرکے کشیدگی کو مزید ہوا دی، جس کے نتیجے میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ 2016ء میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث حوثی باغیوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا، لیکن کسی قسم کی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک یمنی بحران کے باعث دس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ساٹھ فیصد آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ بائیس لاکھ بچے غذائی قلت سے متاثر ہیں، جبکہ علاج معالجہ کی سہولتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ سال آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو سے زائد شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یمن میں کشیدگی اور طویل بحران کے اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تنازع حل کرانے کی پیشکش بدیہی طور پر خوش آئند ضرور ہے، لیکن اس کی کامیابی کے امکانات تقریباً معدوم ہیں۔ یہ سعودی حکومت کو خوش کرنے کی کوشش یا اپنی سیاسی ساکھ میں اضافے کیلئے تو شاید مفید ثابت ہو، لیکن مسلک کے اس تنازع میں پاکستان کی مداخلت خود اپنے ملک کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایران سے بعض تحفظات کے باوجود قابل شکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی تصادم یا اختلاف پیدا کرنے کی تمام اندرونی و بیرونی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ پاکستان پہلے ہی افغانستان کے مسئلے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جیسے معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ عراق، شام، سعودی عرب اور خلیج کے دیگر مسلم ممالک کے درمیان تنازعات کے اسباب سیاسی ہوں یا مسلکی، پاکستان کے لئے ان سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ ہمیں ان سب سے یکساں برادرانہ تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بیرونی تنازعات اور اختلافات کو اپنی سرحدوں کے اندر لانے کا متحمل نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو برسراقتدار آئے ابھی سو دن بھی پورے نہیں ہوئے، ان کا حکومتی اور سیاسی تجربہ ابھی بلوغت کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ جبکہ خود اپنے ملک کے مسائل حل کرنے میں انہیں بے شمار مشکلات اور رکاوٹیں درپیش ہیں۔ ان کی جانب سے پاکستان کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کی کوئی واضح حکمت عملی اب تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔ بارہ ارب ڈالر کا خسارہ پورا کرنے کیلئے ملکی وسائل پر انحصار کا دعویٰ کرنے کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے سعودی عرب اور پھر چین سے توقعات وابستہ کیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کم از کم پانچ یا چھ ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑے گا۔ ان حالات میں اپنے ملکی مسائل کو چھوڑ کر وزیراعظم عمران خان کے یمن یا کسی اور ملک کے معاملات میں ثالثی کے نام پر ٹانگ اڑانے کی بچگانہ کوششوں پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو۔
تھر میں اموات، نصف صدی سے زائد کا قصہ
سندھ کے ریگستانی علاقے تھر میں ہر سال ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث موت کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن وفاق اور سندھ میں گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران وقفے وقفے سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے انسانی جانوں کے اس ضیاع کو روکنے کیلئے آج تک کچھ نہیں کیا۔ اس سال بھی پانچ سو سے زائد بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ دور دراز صحرائی علاقوں میں مرنے والوں کی صحیح تعداد ذرائع ابلاغ تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے تھر میں غذائی قلت اور بیماریوں کے باعث چار سو سے زائد بچوں کی مبینہ اموات کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔ بنچ کے دوسرے رکن جسٹس سجاد علی شاہ ہیں۔ فاضل عدالت نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھرپارکر کی سربراہی میں کمیشن قائم کر کے خوراک، علاج معالجہ اور پانی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی سے متعلق تمام امور کا جائزہ لے کر پندرہ روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 2016ء میں بھی سندھ حکومت کی مرضی سے کمیشن بنایا گیا تھا، جس کے نتائج آج تک سامنے نہیں آ سکے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی برس دو برس کی بات نہیں، نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے۔ اس کے باوجود پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت قوم کی خدمت کرتی رہے گی اور یہ کہ اگلی حکومت پھر ہماری ہوگی۔ اسے ڈھٹائی کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post