تین برس میں قلعہ معلی سے تین میتیں نکلیں

0

دو سال گزر گئے۔ اس دوران کا اہم واقعہ نواب مرزا داغ اور امۃ الفاطمہ کی شادی تھی۔ مرزا فتح الملک بہادر خود تو بارات میں نہ گئے لیکن انہوں نے پورے اہتمام سے داغ کو سوار کرایا، بارات کو رخصت کیا اور دوسرے دن دلہن کی قلعے میں آمد کے وقت استقبال کیلئے موجود رہے۔ ہر چند کہ داغ کی پرورش اور پر داخت میں عمدہ خانم کا بڑا حصہ تھا، لیکن بڑی بہن کا دل رکھنے کے لئے عمدہ خانم نے خود کو دلہن کے گھر والی قرار دیا اور شادی کے ہر کام میں لڑکی والوں کی طرف سے پیش پیش رہیں۔ فاطمہ کچھ دن حویلی میں رہی، پھر سب کے اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ وہ خانم کے بازار والے گھر ہی میں رہے اور جب جی چاہے یہاں آجایا کرے، یا نواب مرزا خان وہیں چلے جایا کریں۔
وزیر خانم اور مرزا فتح الملک بہادر کی محبت دن دونی رات چوگنی ہوتی جاتی تھی۔ خورشید مرزا بھی گھٹنوں چلنے اور غوں غاں کرنے لگے تھے۔ پوری امید تھی کہ بڑے ہوکر لائق اور سعید ثابت ہوں گے۔ وزیر نے دل میں یقین کرلیا تھا کہ اب یہ اچھے دن رات یوں ہی رہیں گے۔ بہت کچھ گنوا کر اب وہ اس منزل پر پہنچی تھی کہ مثنوی شریف کی زبان میں کہہ سکتی تھی
جوہر انسان بگیرد بر و بحر
پیسہ گاواں بسملان روز نحر
ایک دن اچانک شور اٹھا کہ ظل الٰہی کا مزاج بہت ناساز ہے۔ ہر چند کہ بادشاہوں کی بیماری ہمیشہ انتہائی راز میں رکھی جاتی ہے، لیکن بادشاہ سلامت نے کئی دن تک دربار نہ کیا اور تسبیح خانے میں بھی کسی کو باریابی نہ ملی اور حکیم احسن اللہ خان بہادر عمدۃ الحکما روزانہ کم و بیش اٹھارہ بیس گھنٹے قلعۂ معلیٰ میں گزارنے لگے تو لوگوں کے ماتھے ٹھنکے اور افواہ کی زبان تیزی سے گشت کرنے لگی۔ ایک خبریہ بھی تھی کہ مرزا کیومرث بہادر ولی عہد دوئم نے بادشاہ سلامت کو زہر دلوادیا ہے تاکہ بادشاہ کا قصہ پاک ہو اور تخت ہمیں مل جائے۔ یہ بات دل کو لگتی نہ تھی، کہ میراں شاہ مرزا اور بخت بہادر ولی عہد اول ابھی موجود تھے اور بعد جہاں پناہ کے وصال کے بادشاہی انہیں ملتی نہ کہ مرزا کیومرث بہادر کو۔ لیکن جس طرح جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، اسی طرح افواہ کے سو منہ ہوتے ہیں۔ عرش تیموری نے اپنی کتاب ’’قلعۂ معلیٰ کی جھلکیاں‘‘ میں یہ داستان یوں لکھی ہے:
(بادشاہ) کے فرزند شہزادہ کیومرث بہادر ولی عہد نے بد مصاحبی کی وجہ سے لالچ میں آکر شیر کی مونچھ کا بال پان میں رکھ کر کھلا دیا تھا، اس طمع میں کہ اگر بادشاہ کی موت ہوئی تو خود مجھ کو بادشاہت مل جائے گی… بہرحال جب آپ کی حالت غیر ہوئی تو حکمائے وقت کے قے آور ادویات کے استعمال کرانے سے ڈکلے کے ڈکلے خون کے نکلے، اور اتنے کہ کئی چلمچیاں بھرجاتی تھیں۔ آخر اس خون میں بال کی کرچی بھی نکل آئی۔ تحقیقات ہوئی…۔ آخر کار معلوم ہوا کہ یہ کام شہزادہ کیومرث بہادر کا ہے۔ جب حضور بادشاہ کو اس مرض الموت سے افاقہ ہوا تو آپ نے عین صحت یابی کی تقریب میں شہزادہ کیومرث کو طلب فرمایا اور اپنے پاس ایک پیالہ مسموم شربت کا تیار رکھا۔ منچلا فرزند سہما ہوا سر جھکائے حاضر ہوا۔ آداب بجا لایا اور بحالت منتظر کھڑا رہا کہ حکم پدر کی تعمیل کرے۔ بادشاہ نے شربت کا پیالہ ہاتھ میں لے کر بیٹے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا، ’’بیٹا جس طرح تم نے مجھے شیر کا بال کھلایا، اب اس کی مکافات بھرو اور لو یہ زہر کا پیالہ ابھی پیو‘‘۔
مرزا کیومرث ہاتھ باندھ کر کچھ عرض کرنا چاہتا تھا کہ باپ نے للکار کر کہا۔ ’’او موذی کیا اب ناخلف بھی بننا چاہتا ہے؟‘‘۔
مرزا کیومرث دست بستہ ادب گاہ پر آئے۔ آداب بجا لائے اور ’’بہت بہتر‘‘ کہہ کر غٹا غٹ زہر کا پیالہ چڑھا گئے۔ اور تھوڑی دیر میں باپ کے قدموں میں گر کر سرد ہوگئے۔
بیان کی ڈرامائیت قابل داد ہے، لیکن اس میں کچھ بھی سچ نہیں، سوائے اس کے کہ مرزا کیومرث بہادر 1847ء کے آس پاس اچانک راہی ملک عدم ہوئے۔ بادشاہ کو شیر کی مونچھ کا بال کھلانے یا زہر دلوانے کی روایت کسی معاصر ماخذ میں نہیں ملتی، اور نہ ہی شیر کی مونچھ کا بال کوئی سمّیت رکھتا ہے کہ جو اسے کھائے اسے خون کی الٹیا ہوں اور وہ مر جائے۔ نیز یہ واقعہ اگر 1847ء سے پہلے کا ہے تو اس وقت مرزا شاہرخ بہادر حیات تھے اور اس طرح بادشاہت اور مرزا کیومرث کے درمیان دو ولی عہد موجود تھے۔ اور اگر یہ واقعہ 1847ء کے بعد کا ہے تو اس زمانے میں بادشاہ اور انگریزوں کے درمیان مرزا فخرو بہادر کی ولی عہدی کے لئے مراسلت چل رہی تھی، اور خود مرزا فخر و بہادر بھی اس باب میں انگریز حاکمان کی خدمت میں اور بادشاہ سلامت کی خدمت میں عرضیاں روانہ کر رہے تھے۔ لہٰذا یہ غیر ممکن ہے کہ مرزا کیومرث نے کبھی ایسا احمقانہ اور غیر موثر اقدام کیا ہو۔
یہ بات صحیح ہے کہ بادشاہ سلامت کو ایک وقت میں پیٹ کا عارضہ ہوا تھا، اور یہ بہت تکلیف دہ عارضہ تھا۔ لیکن یہ بات بہت بعد کی ہے، اور اس زمانے میں تو پیٹ کا مرض عام تھا۔ صاحبان انگریز کو امراض شکم اکثر موجب مرگ ہوتے تھے۔ مرزا کیومرث کے انتقال کی صحیح تاریخ کہیں درج نہیں، لیکن اغلب ہے کہ ان کا انتقال اوائل 1847ء میں ہوا اور اچانک ہوا۔ اچانک موتوں پر زہر خورانی کی افواہ اس زمانے میں عام طور پر اڑ جایا کرتی تھی۔ مرزا کیومرث کے گزرنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مرزا شاہرخ بہادر ولی عہد دوئم بھی اپریل 1847ء میں اللہ کو پیارے ہوئے۔
ان اموات نے نظام بادشاہی میں کچھ رخنہ پیدا نہ کیا کہ مرزا دارا بخت بہادر ولی عہد اول موجود تھے اور مقبول خاص و عام تھے۔ زینت محل کی خواہش شدید کے باوجود مرزا جواں بخت کے لئے ابھی کوئی راہ نہ نکل سکتی تھی۔ لیکن 1849ء کے بالکل اوائل میں، یعنی 11 جنوری 1849ء کو مرزا محمد دارا بخت راہی ملک بقا ہوئے۔ پہلے انہیں ہلکا سا زکام اور تپ ہوئی، جسے بسبب بلغمی مزاج قرار دیا گیا اور اخراج بلغم کی دوائیں انہیں دی گئیں۔ لیکن دو ہی دن میں تپ حد سے بڑھ گئی اور پھیپھڑوں میں ورم آگیا۔ چار دن بیمار رہ کر شاہزادے نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ جہاں پناہ بادشاہ سلامت اور سارے قلعے نے ان کا سوگ کیا۔ کئی دن تک دربار نہیں ہوا اور رونے کی آوازیں قلعے کی دیواروں سے ٹکراتی رہیں۔
تیسرے دن پھولوں کی تیاری ہوئی، فاتحے کے کھانے پکے۔ لوگوں نے جمع ہوکر ایک ایک سیپارہ کلام پاک پڑھا۔ الائچی دانوں پر ستر ستر ہزار مرتبہ کلمہ شریف پڑھا گیا۔ پھر الائچی دانے سب میں تقسیم کئے گئے۔ مرحوم کے نام پر کھانا اور جوڑا اور دو شالہ خیرات کیا گیا۔ بعد فاتحہ بادشاہ محل میں آئے۔ مرحوم کے بیٹوں، بہوؤں، دامادوں اور بیٹیوں کو سوگ اتروانے کے دو شالے اور بیویوں کو رنڈ سالے مرحمت فرمائے۔ ہر طرف کہرام آہ و بکا برپا ہوا۔ حضور بھی آبدیدہ ہوئے اور فرمایا، ’’اماں، صبر کرو۔ تقدیر الٰہی میں کسی کو دم مارنے کی جائے نہیں‘‘۔ پھر نویں دن، انیسویں دن، اور چالیسویں دن کے فاتحے ہوئے۔ قبر پر چادر ازسر نو چڑھی، ختم کے الائچی دانے سب میں تقسیم کئے گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More