خلیفہ ہارون رشید کے ایک بیٹے کا نام مامون رشید تھا، وہ اپنے بھائیوںمیں ذہانت کے اعتبار سے مقبول تھا، خلیفہ نے مامون کو بچپن ہی سے نیک لوگوں کی صحبت کا عادی بنا دیا تھا، چناں چہ اور باتوں کے ساتھ ساتھ جب اس کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو خلیفہ نے اس کے لیے ایک معلم کا انتظام کیا اور معلم بھی معمولی شخص نہیں تھا، بلکہ اپنے وقت کا علم نحو کا امام، امام کسائیؒ تھا۔
چناں چہ امام کسائیؒ مامون کو قرآن پاک پڑھاتے، ان کے پڑھانے کا انداز یہ تھا کہ مامون قرآن پڑھتے جاتے اور امام کسائیؒ سر جھکائے سنتے جاتے، جہاں ان سے غلطی ہوتی تو وہ سر اٹھا دیتے، یہ سمجھ جاتے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی کی اصلاح کر دیتے۔
اسی طرح ایک دن یہ قرآن کریم کی سورۃ الصف کی تلاوت کر رہے تھے تو جب اس آیت پر پہنچے جس کا ترجمہ ہے:
’’اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جس کو تم پورا نہیں کرتے۔‘‘ (آیت نمبر 2)
تو امام صاحب نے سر اٹھایا، مامون سمجھے کہ میں نے غلط پڑھا ہے، چناں چہ انہوں نے آیت دوبارہ غور سے پڑھی، لیکن آیت اپنی جگہ درست تھی۔
سبق کے ختم ہونے کے بعد مامون اپنے والد ہارون الرشید کے پاس آئے اور ان سے عرض کی کہ کیا آپ نے امام کسائیؒ سے کوئی وعدہ کیا تھا، جس کو آپ نے ابھی تک پورا نہیں کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہاں! لیکن یہ تو بتاؤ کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا تو مامون نے بتایا کہ میں فلاں آیت پڑھ رہا تھا، آیت میں غلطی نہیں تھی، پھر بھی امام صاحب نے سر اٹھایا تو میں سمجھ گیا کہ شاید آپ نے ان سے کوئی وعدہ کیا ہے اور ابھی تک پورا نہیں کیا ہے، پھر ہارون رشید نے کہا کہ ہاں! میں نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں قاری حضرات کے لیے وظیفہ مقرر کروں گا، لیکن میں ابھی تک یہ کام نہیں کر سکا ہوں، پھر ہارون الرشید اپنے اس کم سن بچے کی ذہانت پر متعجب اور مسرور ہوئے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post