نذر الاسلام چودھری
جمال خشوگی کے بعد ایک اور سعودی صحافی کے قتل کی خبریں زیر گردش ہیں۔ خلیجی نیوز پورٹل ’’نیو خلیج‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی ناقد کہلائے جانے والے سعودی لکھاری ترکی بن عبد العزیز الجسر کو حکومتی فورسز نے اپنی تحویل میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا، جہاں ان کے بارے میں کہا جارہا ہے وہ سعودی حکام کے تشدد کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوچکے ہیں۔ لیکن سعودی حکام نے تاحال اس کی تصدیق و تردید نہیں کی ہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ زیر حراست سعودی صحافی اور ٹویٹر لکھاری ترکی بن عبد العزیز کی موت تشدد سے ہوئی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے اندر اثر و نفوذ رکھنے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ترکی بن عبد العزیز ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کی تدفین بھی کی جا چکی ہے۔ البتہ ان کی موت کے حوالے سے اہل خانہ کو دبائو میں رکھے جانے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں، جس کی وجہ سے لواحقین اپنی رائے سے آگاہ نہیں کرسکے ہیں۔ واضح رہے کہ زیر حراست صحافی ترکی بن عبد العزیز ٹویٹر پر متحرک رہتے تھے اور ان کے بارے میں سعودی حکام کو شبہات تھے کہ وہ ٹویٹر پر ’’کشکول ‘‘ نامی گروپ چلا رہے تھے، جہاں سعودی حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔ جس پر سعودی حکام/ سیکورٹی نے انہیں حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔ تاہم اب عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ترکی بد ترین تشدد سے ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ترکی بن عبد العزیز ال جسر کو مارچ 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا اور سعودی اتھارٹیز/ انٹیلی جنس کو دبئی کے ٹویٹر آفس میں موجود ایک ایجنٹ نے معلومات فراہم کی تھیں کہ ترکی بن عبد العزیز کشکول گروپ چلا رہے ہیں۔ ٹویٹر کے دبئی آفس میں موجود سعودی ایجنٹ نے ان کو حکومت کے ناقد گروپ ’’کشکول‘‘ کا ایڈمن بتایا تھا، جس کے بعد ترکی کو خاموشی کے ساتھ اٹھا لیا گیا۔ ادھر استنبول میں سعودی سفارت خانہ میں بے دردی سے ہلاک کئے جانے والے صحافی جمال خشوگی کیس میں نئی پیش رفت ہوئی ہے اور ترک حکام نے خبر دار کیا ہے کہ انہوں نے جمال خشوگی کی لاش کو تیزاب میں تحلیل کئے جانے کی تھیوری بہت سوچ سمجھ کر پیش کی تھی اور اس کی وجوہات بہت ٹھوس ہیں کیونکہ استنبول کے سعودی سفارت خانہ کے قونصل جنرل العتی بی کے گھر سے بڑی مقدار میں مرتکز تیزاب ’’سوڈیم ہائیڈرو کلورائیڈ‘‘ سمیت مختلف اقسام کے کیمیکلز بھی بر آمد ہوئے ہیں، جن کا سائنٹیفک اور کیمیکل ٹیسٹ کروایا جائے گا کیونکہ ترک تفتیش کاروں نے سفارت خانہ میں واقع باغیچے اور ایک کنویں سمیت نکاسی آب کی نالیوں میں مختلف اقسام کے تیزابی مادوں کی بڑی مقدا ر کو ٹریس کیا ہے اور اب ترک پراسکیوٹرز نے انکشاف کیا ہے کہ وہ سعودی قونصل جنرل کے گھر اور سفارت خانہ سے بر آمد تیز اب اور کیمیائی محلولوں کی جانچ کروارہے ہیں تاکہ اس کی تصدیق کی جاسکے کہ آیا واقعی جمال خشوگی کی لاش کو مرتکز تیزاب میں ڈال کر گھلا دیا گیا ہے؟ واضح رہے کہ سعودی اٹارنی جنرل سعود المجیب کے حالیہ دورہ ترکی اور ایک ہفتے طویل قیام کے باوجود ترک حکام ان کے دورے کی افادیت کا انکار کررہے ہیں۔ ادھر امریکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ناقد صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت کے واقعہ میں ملوث ایک اہم ملزم اور سعودی انٹیلی جنس کے سرکردہ افسر سعودی ال قحطانی بھی سعودی سیکورٹی کی حراست میں ہلاک کردیئے گئے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ بن سلمان المعروف کا دست راست کہلائے جانے والے سعود ال قحطانی پر سعودی اعلیٰ قیادت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے جمال خشوگی کو اپنی صوابدید پر گرفتار کرکے نجی طیارے میں ریاض واپس لانے کی کوشش ناکام ہونے پر انہیں سفارت خانہ ہی میں ہلاک کردیا تھا اور ان کی لاش کو انڈر ورلڈ کے ایک رکن کے حوالہ کرکے غائب کردیا گیا تھا۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی سرزمین پر چلائے جانے والے تمام ٹویٹر اکائونٹس اور ان کی تمام سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کیلئے سعودی انٹیلی جنس کے اعلیٰ افسر سعود ال قحطانی نے ایک فورس قائم کی تھی جس کو سعودی سائبر فورس کا نام دیا گیا تھا۔ اس فورس کی کامیاب مانیٹرنگ اور ٹویٹر سمیت سماجی رابطوں کی سائیٹس پر متحرک تمام جعلی اور اصلی ناموں کی اسکریننگ کے بعد یہ پتا چلایا جاچکا تھا کہ سعودی سرزمین پر موجود کون سا فرد کونسا ٹوئٹر یا دیگر سوشل سائیٹس کا صفحہ چلا رہا ہے۔ سعودی حکومت کی
جانب سے مخالفین کیخلاف چلائی جانے والی مہم کے حوالہ سے مغربی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 2017 کے بعد سے شروع کئے جانے والے کریک ڈائون میں صحافی ترکی بن عبد العزیز کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، لیکن دوسرے گرفتار شدگان نے اپنی جان کا فدیہ نقد رقوم، جائیدادوں اور کاروبار کی شکل میں ادا کرکے زندگی بچالی تھی لیکن چونکہ ترکی بن عبد العزیز کے پاس مال و اسباب نہیں تھا سو وہ ہلاک کردیئے گئے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post