امت رپورٹ
کراچی کے اہم تجارتی مرکز، صدر کے تاجر میئر وسیم اختر کے خلاف پھٹ پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ کے ایم سی، کے بد عنوان افسران کو منہ مانگا بھتہ نہ دینے پر ان کی لیز دکانوں کو بھی انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں مسمار کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف گارمنٹس اور شوز شاپس کے مالکان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جبکہ پرندہ مارکیٹ، چائے کے ہوٹل، الیکٹرونکس، ڈرائی فروٹ اور دیگر اشیائے صرف کی دکانیں منہدم ہونے سے نہ صرف ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے کا خدشہ ہے، بلکہ لاکھوں شہریوں کو بھی سستی اشیا سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس صورتحال میں تاجروں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کا عندیہ دیدیا ہے۔
صدر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کے دکان داروں کا کہنا ہے کہ وہ 50 سال سے باقاعدگی سے کے ایم سی کو کرایہ ادا کر رہے ہیں، چنانچہ اگر متبادل جگہ فراہم نہیں کی جاتی، وہ دکانیں مسمار کرنے کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے دو سابق ناظم اعلیٰ ان دکانوں کو قانونی قرار دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر کے ایم سی نے صدر ایمپریس مارکیٹ اور اس سے ملحقہ مارکیٹوں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تو ٹھیلے پتھارے ہٹانے کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے سڑکوں پر قائم تجاوزات ہٹانے کی تاجر برادری بھی حمایت کرتی رہی۔ تاہم میئر کراچی کے حکم پر کے ایم سی کی لیز مارکیٹوں پر بھی دھاوا بول دیا گیا، اور یوں ایمپریس مارکیٹ کے اطراف عمر فاروق مارکیٹ، انڈا مارکیٹ، مصالحہ جات، خشک میوہ جات اور دیگر مارکیٹوں کے تاجر ایمپریس مارکیٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ دوسری جانب الیکٹرونکس مارکیٹ، اکبر روڈ کی موٹر سائیکلوں کی مارکیٹ اور دیگر مارکیٹوں کے تاجروں نے بھی احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کا اعلان کردیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ لیز دکانیں مسمار کرنے والے عدلیہ اور حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی دکانوں سے کرایہ اور سائن بورڈ پر سالانہ ٹیکس وصول کرتی ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے تاجر رہنما عتیق میر کا کہنا تھا کہ وہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم عدالتی حکم سے تجاوز کرکے تاجروں کو اشتعال میں لایا جا رہا ہے۔ کے ایم سی کی مارکیٹوں کے دکانداروں کو متبادل جگہ دی جائے۔ تاجر برادری پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہے۔ ان پر ایک نئی پریشانی لاد دی گئی۔ میئر کراچی تاجروں کے دھرنے کو غیر قانونی قرار دینے کے بجائے ان سے بات چیت کریں۔ عتیق میر کا کہنا تھا کہ پچھلے 70 سال سے قائم ہونے والی تجاوزات کا خاتمہ کرنا اچھا اقدام ہے اور ماضی کا گند صاف کرنا اچھی بات ہے۔ تاہم یہ اچھا کام غلط انداز میں کیا جارہا ہے۔ ٹھیلے پتھارے والوں کو ہٹایا تو وہ کسی اور جگہ چلے جائیں گے۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ کے ایم سی کو کرایہ ادا کرنے والے دکاندار جو گزشتہ 50 سال کے دوران دکانوں پر لاکھوں روپے لگا چکے ہیں، انہیں متبادل جگہ دی جاتی۔ اس کے بعد بے شک دکانیں مسمار کردیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے احکامات دیئے ہیں کہ ٹریفک جام ختم کرنے کیلئے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ عتیق میر کے مطابق ایمپریس مارکیٹ کے اطراف مارکیٹوں کے 1700 دکاندار متاثر ہورہے ہیں، ان کو بے روزگار نہ کیا جائے۔ کے ایم سی کے افسران اور میئر کراچی دھرنے دینے والے دکانداروں سے ہتک آمیز رویہ اختیار نہ کریں اور متبادل جگہیں دینے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات پر ان کے ساتھ بات چیت کریں۔ عمر فاروق مارکیٹ کے تاجر رہنما محمد اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ یہاں 1968ء سے کاروبار کررہے ہیں۔ اس مارکیٹ کے 605 دکاندار کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتے ہیں۔ 1969ء سے کے ایم سی والے کرایہ داری کے چالان ایشو کررہے ہیں۔ نعمت اللہ ایڈووکیٹ نے ہمارے کیبنوں کو دکانیں بنانے کا اجازت نامہ دیا اور مصطفیٰ کمال نے بھی اس اقدام کو تسلیم کیا۔ اب 7 نومبر کو کے ایم سی والوں نے آکر کہا کہ تین گھنٹے کی مہلت دی جاتی ہے، اپنا سامان نکال لو کیونکہ مارکیٹیں مسمار کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ کے تاجر کروڑوں روپے کرایہ ادا کرچکے ہیں۔ تاجروں کے دھرنے میں موجود محمد ابراہیم، مولاداد، آغا صدرالدین اور محمد نعیم نامی دکان داروں کا کہنا تھا کہ میئر کراچی، احتجاجی تاجروں سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ہتک آمیز رویہ اختیار کررہے ہیں۔ میئر کراچی کے ساتھی کے ایم سی، کے بدعنوان افسران کا ٹولہ جو پہلے تجاوزات قائم کراتا رہا، اب بھتہ بند ہونے پر انتقامی کارروائیوں پر تل چکا ہے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ میئر کراچی ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں کو پارکنگ پلازہ میں عارضی جگہ دے دیں۔ وہاں پارکنگ نہ ہونے سے کے ایم سی کو ویسے بھی نقصان ہورہا ہے جبکہ پارکنگ پلازہ کے سامنے خالی پلاٹ یا اطراف کے پلاٹ پر منتقل بھی متاثرہ دکان داروں کو منتقل کرسکتے ہیں۔
صدر کے تاجروں نے ’’امت‘‘ کو مزید بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں عمر فاروق مارکیٹ، پان منڈی مارکیٹ اور دیگر چھوٹی مارکیٹس اور دکانیں مسمار کرنے سے 3 سے 4 ہزار گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ سب سے زیادہ کپڑے اور جوتوں کے دکاندار متاثر ہوںگے۔ جبکہ پرندہ مارکیٹ، پالتو جانوروں کی مارکیٹ، پتنگ مارکیٹ، الیکٹرونکس کی دکانیں، عشروں پرانے چائے اور کھانے کے ہوٹل سمیت کئی بزنس بند ہونے سے شہر کی معاشی سرگرمیوں پر بھی نہ صرف منفی اثر پڑے گا، بلکہ متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں شہری بھی سستی اشیائے صرف سے محروم ہوجائیں گے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ بغیر حکمت عملی کے تحت شروع کیا گئے آپریشن کے باعث انہیں کروڑوں روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ وہ دھرنا دے کر بیٹھے ہیں اور تین روز میں اپنا لاکھوں روپے کا نقصان کر چکے ہیں۔ تاہم اب بھی حکومت اگر ان کی لیز دکانیں مسمار کرنے پر بضد ہے تو وہ کارروائی کرنے کیلئے آنے والی مشنری تلے لیٹ جائیں گے، کیونکہ ویسے بھی بے روزگاری موت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس سلسلے میں تاجر رہنما حاجی عبدالرشید کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’’میں اس مارکیٹ میں 50 برس سے زائد وقت گزار چکا ہوں۔ وسیم اختر ہمیں اٹھا کر یہاں بعد میں دوسرے لوگوں کو بٹھانا چاہتے ہیں، جن سے زائد رقم بٹور سکیں۔‘‘ حاجی دلاور اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اگر دکانداروں کو ہٹانا ہے تو اس کے بدلے متبادل جگہ فراہم کریں۔ ماسٹر خالق داد کا کہنا تھا کہ ان کی پیدا ئش اسی صدر کے علاقے کی ہے۔ یہاں ان کی دو دکانیں ہیں جو ان کے والد نے لی تھیں۔ صدر تاجر ایسوسی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد رضوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات تجاوزات ہٹانے کیلئے ہیں، جبکہ ہم تو کے ایم سی کو ریونیو دیتے ہیں۔ عمر فاروق مارکیٹ کے پرانے دکاندار شہزاد خان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت یہاں سے دکان ختم نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے عدالت سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ صدر کی مارکیٹوں کو مسمار کرنے سے جہاں براہ راست 3 سے 4 ہزار دکاندار و محنت کش بے روزگار ہوجائیں گے، وہیں لاکھوں عام شہریوں کو بھی پریشانی سے دوچار ہو نا پڑے گا۔ کیونکہ شہر کی دیگر دکانوں کی نسبت ان مارکیٹوں میں با رعایت اشیائے ضروریہ میسر آجاتی ہیں۔ یاد رہے کہ مسمار ہونے والی دکانوں میں 30 سے 35 فیصد دکانیں لنڈا کے مال کی ہیں،15سے 20 فیصد دکانیں جوتوں، 10فیصد دکانیں پرندوں اور 10فیصد دکانیں دیگر اشیا کی ہیں۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہم نے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ہیں ان دکان داروں کو نوٹس دیئے تھے کہ تجاوزات از خود ہٹا دیں، بصورت دیگر ہمیں ہٹانا پڑیں گے۔ لگ بھگ ایک ہزار دکانیں ہیں جو اینٹی انکروچمنٹ کی زد میں آئیں گی۔ صدر کو ماڈل بنانے اور واپس اصلی حالت میں لانے کیلئے ان تمام دکانوں کو ہٹانا ہوگا۔‘‘
موقف معلوم کرنے کیلئے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان سے بھی رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭