سید ارتضی علی کرمانی
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب مہروی جن کا تعلق شہداں والی مضافات منڈی بہاؤالدین بیان کرتے ہیں کہ میرے والدین بے اولاد ہونے کی وجہ سے بہت غمگین رہتے تھے۔ حضرت صاحب کے پرانے مرید تھے۔ ایک بار حاضر ہوئے تو ریلوے اسٹیشن سے دربار شریف تک دونوں میں بحث و تکرار ہوتی رہی کہ اولاد کیلئے حضرت صاحبؒ کی خدمت میں کون دعا کی درخواست کرے گا۔ دونوں حضرت صاحبؒ کے آگے شرما رہے تھے۔
حضرت صاحبؒ کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو حضرت صاحبؒ نے تبسم فرماتے ہوئے پوچھا کہ ’’تم لوگ کس بات پر جھگڑ رہے تھے؟‘‘ اور اسی کے ساتھ فرمایا ’’حق تعالیٰ نے چاہا تو تو وہ تمہیں فرزند عطا فرمائے گا، غلام غوث نام رکھنا۔‘‘ میری پیدائش سے کچھ عرصہ قبل والد صاحب نے حضرت صاحبؒ کو اور اپنے والد صاحب کو جوکہ حضرت پیر صاحب تونسوی کے مرید تھے، خواب میں دیکھا کہ ایک بچہ ان سے لیا، جس کا ایک کان قدرے ٹیڑھا تھا اور اس کے پیٹ پر خار مغیلاں کی طرح کا ایک مسئلہ تھا۔ صبح اٹھ کر والد صاحب نے اس خواب کا اعلان کر دیا۔ پھر جب میں پیدا ہوا تو لوگ آکر دونوں نشانیوں کو میرے جسم پر دیکھتے اور حضرت صاحبؒ کی کرامت کا چرچا کرتے۔
اسی طرح کا واقعہ ایک پٹھان کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت کی بیماری کے ایام میں ایک پٹھان اور اس کی بیوی آئے، یہ دونوں میاں بیوی کمرے کے باہر دروازے کی دہلیز پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد بیوی نے خاوند سے کہا ’’پیر صاحب سے کہہ نا کہ دعا کریں کہ خدا ہم کو اولاد دے۔‘‘ پٹھان نے جھڑک کر کہا ’’چپ رہ! دیکھتی نہیں، پیر صاحب کتنی تکلیف میں ہیں اور تو کہتی ہے کہ اولاد کے لئے کہوں؟‘‘
اس وقت کمرے میں مولوی محبوب عالم صاحب اور سائیں بخت جمال صاحب قوال موجود تھے۔ حضرت نے اپنی نحیف آواز میں فرمایا کہ ’’محبوب اس سنگی (رفیق) کو بلاؤ، میری طویل بیماری میں ہر شخص اپنے لئے ہی دعا کرواتا رہا ہے، آج میری تکلیف میں اس شخص کو رنج پہنچا ہے۔ آپ نے اجوائن دم کر کے دی اور دعا بھی فرمائی۔ اگلے سال جب یہ دونوں میاں بیوی نوازائیدہ فرزند کو لے کر حاضر ہوئے تو سائیں بخت جمال کہتے ہیں کہ اس وقت بھی اتفاق سے میں اور جناب مولوی محبوب عالم صاحب ہی حضرت صاحب کے کمرے میں حاضر تھے۔
حضرت صاحب کی دم کی ہوئی اجوائن کی بہت زیادہ دھوم تھی، اکثر لوگوں کو آپ کی دم کی ہوئی اجوائن پر ازحد بھروسہ تھا۔ ایک لطیفہ اسی ضمن میں ملاحظہ ہو۔
ایک مرتبہ آپ کے بچپن کے دوست ملک پائندہ خان صاحب جو کہ حسن ابدال کے زمیندار تھے، آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ اس وقت قیلولہ فرما رہے تھے۔ کمرے کے باہر بچوں نے شورو غل مچا رکھا تھا، جنہیں ملک صاحب باربار جاکر منع کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت صاحب نے بے چین ہوکر فرمایا کہ ’’ملک! یہ کیسا شور ہے؟‘‘ تو پائندہ خان نے جنہیں بچپن کی دوستی اور اخلاص نے قدرے بے تکلف بنا رکھا تھا کہا:
’’جوان! یہہ تینڈی جوائن پئی چیکدی اے‘‘
یعنی یہ آپ کی اجوائن نے شور مچا رکھا ہے۔
حضرت صاحبؒ کی ایک اور کرامت ملاحظہ فرمایئے۔ جامع مسجد راولپنڈی کے مشہور خطیب اور مذہبی و سیاسی لیڈر مولانا بخش قصوری صاحب بیان کرتے تھے کہ
’’ہندوستان سے فارغ التحصیل ہوکر جب میں گھر آیا تو اپنے شہر کے رئیس نواب زادہ فتح باز خان صاحب قصوری کے ہمراہ گولڑہ شریف حاضر ہو کر بیعت کی۔ واپسی پر گولڑہ ریلوے اسٹیشن سے باہر مسجد میں ظہر کی نماز کیلئے وضو کر کے نواب زادہ صاحب کیلئے آفتابہ بھر کر لے جایا جا رہا تھا۔ سامنے سے ایک مال گاڑی آرہی تھی۔ میں جلدی جلدی گزرنے لگا کہ میرا پیر سنگل کی تاروں سے الجھ گیا اور میں پٹری پرگر گیا۔ انجن اس قدر قریب آگیا کہ میرا اٹھ کر چل نکلنا ناممکن تھا۔ پلیٹ فارم پر ہمراہیوں اور دیگر مسافروں کی ہائے ہائے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اچانک ایک ہاتھ میری گردن کے پیچھے اور ایک ٹانگوں کے نیچے پڑا اور کسی نے مجھے اٹھا کر لائن سے باہر ڈال دیا اور ایک آواز جو حضرت صاحبؒ کی ہی تھی سنائی دی ’’ہا! ایسی غلطی‘‘ چنانچہ ہم لوگ سفر ملتوی کر کے واپس حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قدم بوسی کی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post