لاہور( مانیٹرنگ ڈیسک) آسیہ مسیح کے معاملے پر پیدا ہونے بحران پرحکومت نے مذہبی قیادت سے مدد مانگ لی ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کی مذہبی قیادت سے درخواست ہے کہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں، مسائل کے حل کیلئے ریاست تمام مسالک کو برابری کا ماحول دے گی فواد چوہدری نے کہا کہ آسیہ کیس کے بعد پیدا ہونے والا بحران حکومت کا نہیں بلکہ معاشرے کا بحران ہے، توہین آمیز خاکے ہوں یا کسی کو مشیر لگانا ایک طبقہ ہر مسئلے پر سیاست کرتا ہے،ہمارے مذہبی اکابرین کو اس نظریاتی جنگ میں اپنا کردار اداکرنا ہوگا، ماضی کے برعکس حکومت مذہبی قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوگی،انہوں نے کہا کہ نظریات کی لڑائی کو ان ہاتھوں میں جانے سے روکیں گے جو ہمارے مذہب کی خدمت نہیں کررہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ نظریات کی جنگ کرنیوالے کسی کی خدمت نہیں کر رہے، مذہب کے نام پر سیاست نہیںہونی چاہئے. حکومت مذہبی قیادت کے ساتھ چلے گی، پاکستان میں پہلی مرتبہ ربیع الاول کا جشن سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے۔ لاہور میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا پاکستان میں کچھ لوگ مذہب کے نام پر سیاست کررہے ہیں، مذہب کے نام پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، جس کو نبی کریمﷺ سے عشق نہیں وہ مومن ہی نہیں، وزیراعظم عمران خان سچے عاشق رسولﷺ ہیں، موجودہ حکومت مذہبی قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے گی۔فواد چوہدری نے کہا کہ مذہبی قیادت کو ملک میں جاری نظریاتی جنگ کو اپنانا ہوگا، یہ لڑائی نظریات کی لڑائی ہے جو دلیل سے جیتی جاتی ہے، ہمارے ہاں سیاسی بحران نہیں فکری بحران ہے، دلیل کی بنیاد پر بات کرنے والے علما کو شہید کیا گیا، صوفیاء کرام کے عبادت گاہوں پر حملے کیے گیے، ماضی میں ریاست نے اس سب کو تماشائی بن کر دیکھا، ریاست لمبے عرصے تک غیر روایتی جنگ میں شریک رہی ہے۔فواد چوہدری نے کہا ملک کی مذہبی قیادت سے درخواست ہے کہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں، ریاست جب تک تمام مسالک کو برابری کا ماحول نہ دے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ انتشاراوربدامنی پھیلانے والے دلیل سے عاری ہیں۔ لاہور میں ’’ عدم برداشت کاپھیلتا رجحان اور ریاست کی ذمہ داریاں ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست کا نمونہ بنایا جائے اور اس کیلئے عملی اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں ۔ اگر ریاست میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہ ہوں تو یہ مدینہ کی ریاست سے کوسوں دور ہونے والی بات ہے ۔ایسی ریاست کی شرائط میں سب سے اہم ترین شرط اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہے اور انشا اللہ پاکستان حقیقی معنوں میں پراگریسو اور فلاحی ریاست ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح وزیر اعظم عمران خان سوچتے ہیں اس طرح کوئی بھی نہیں سوچتا ،کیا کسی دوسرے وزیر اعظم نے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے 25لاکھ بچوں کے بارے میں سوچا تھا۔کیا کسی وزیر اعظم نے مزدوری کرکے رات کو بغیر سائبان رات بسر کرنے والے مزدوروں کے بارے میں سوچا تھا۔وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ ہمیں غریب ترین لوگوں کو اوپر اٹھانا چاہیے اور ہم ان کا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے ہیں ۔وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کو سہولیات دینا میرا کام ہے ، کیا ہزاروں روپے تنخواہ لینے والا کوئی شخص ساری عمر اپنا گھر بنا سکتا ہے اسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت پہلی بار سرکاری سطح پر ربیع الاول کو منا رہی ہے ۔ 20نومبر کو منعقد ہونے والی رحمت اللعالمین کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان کریں گے جس میں دنیا بھر سے علمائے کرام کو مدعو کیا گیا ہے ۔ ہم نے مل کر اس لڑائی کو ان ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے جو مذہب اور معاشرے کی خدمت نہیں کر رہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کئی سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ان کے دور میں کیا کیا واقعات نہیں ہوئے لیکن انہوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا ۔ جب وہ حکومت میں ہوں تو حکومت ، آئین ہر چیز صحیح ہوتی ہے لیکن جیسے ہی حکومت سے باہر جائیں تو انہیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔یہ پہلا موقع ہے کہ 1988ء کے بعد مولانا فضل الرحمن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ۔ موجودہ حکومت کی گاڑی ڈیزل کے بغیر اچھی چل رہی ہے کیونکہ اب ہائبرڈ گاڑیاں آرہی ہیں ۔