حصہ سوم
ضیاء الرحمٰن چترالی
2007ء میں مجھے لبنان جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وہاں چار دن یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ گزارے، جو سب کی سب حجاب پہنے ہوئے تھیں اور جن کے سر کے بال تک نظر نہیں آتے تھے۔ وہ خوبصورت، خودمختار اور صاف گو تھیں اور قطعاً ایسی ڈرپوک اور بزدل نہیں لگ رہیں تھیں کہ کوئی زبردستی ان کی مرضی کے برخلاف انہیں پکڑ کر ان کی شادی کر دیتا جیسا کہ میرے ذہن میں تصور تھا، جو میں نے مغرب کے اخباروں میں پڑھ کر قائم کیا تھا۔
جتنا زیادہ وقت میں مشرقِ وسطیٰ میں گزار رہی تھی، اتنی ہی زیادہ تبدیلی میں اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔ میں انہیں خود کو مسجد میں لے جانے کے لئے کہتی۔ اپنے آپ کو میں یہ کہہ کر مطمئن کرلیتی کہ میں سیاحت کررہی ہوں، مگر درحقیقت مساجد مجھے بے حد دلکش لگتی تھیں۔ مجسموں سے پاک اور خوبصورت غالیچوں سے آراستہ۔
پھر وہ رات آئی جو میرے اندر ایک روحانی تبدیلی کا سبب بنی اور جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکی ہوں، جب ایران کے شہر قم میں فاطمہ معصومہ بنت امام کاظم کے مزار پر حاضری کے دوران خالص روحانی لذت کا احساس میرے سارے وجود میں سرایت کر گیا، ایک مکمل سپردگی اور آسودگی کا سکون بھرا احساس۔ بہت ساری خواتین میرے اردگرد جمع ہوگئیں اور مجھ سے میرے روحانی احساسات کے بارے میں باتیں کرنے لگیں۔ میں یہ جان گئی تھی کہ اب میری حیثیت اسلام میں محض ایک سیاح کی نہیں رہی، بلکہ اب میں مسلم امہ میں ایک مسافر کی حیثیت اختیار کر چکی ہوں اور اس مسلم برادری کا ایک حصہ ہوں، جس سے تمام اہل ایمان جڑے ہوئے ہیں۔
اس روحانی تجربے کے بعد میری سوچ مختلف دھاروں میں بہنے لگی تھی اور میں مسلسل یہی سوچ رہی تھی کہ کیا مجھے واقعی اسلام قبول کر لینا چاہئے؟ اگر میں نے ایسا کیا تو میرے دوست احباب اور میرے خاندان والے میرے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ کیا مجھے زندگی کے بہت سارے معاملات میں اپنے رویوں میں اعتدال اور تبدیلی پیدا کرنا پڑے گی۔ سوچوں کے دھارے پر بہتے بہتے میرے اندر ایک انوکھے احساس نے جنم لیا اور جو سوالات میرے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے، ان کے بارے میں میرے دل نے یہ جواب دیا کہ اگر مجھے اسلام قبول کرنا ہے تو مجھے ان تمام باتوں سے گھبرانے اور پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بیشک اسلام قبول کرنا آسان عمل ہے، مگر اسلام کو اپنے اندر پورے کا پورا داخل کرلینا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا آسان نہیں۔
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اب تک کتنا قرآن پڑھا ہے اور میں یہ کہتی ہوں کہ میں نے اب تک صرف سو صفحات کا باترجمہ مطالعہ کیا ہے، مگر اس سے پہلے کہ میری اس بات کو کوئی طنزیہ نظروں سے دیکھے، میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ اس عظیم کتاب کی ایک وقت میں دس لائنیں پڑھنا چاہئے، تلاوت کے ساتھ اور مکمل تدبر کے ساتھ، اس طرح کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہوں، اس کو اچھی طرح سمجھ بھی رہے ہو اور اگر ممکن ہو تو ان دس لائنوں کو زبانی یاد بھی کرلینا چاہئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قرآن کو خدا کی نازل کی ہوئی کتابِ ہدایت سمجھ کر پڑھنا چاہئے نہ کہ کوئی رسالہ سمجھ کر۔ میں عربی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کروں گی، مگر اس میں خاصہ وقت لگے گا۔
میری دو بیٹیاں ہیں اور میں کل وقتی کام کرتی ہوں۔ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہونے کے لئے بہت زیادہ مطالعے کی ضرورت پڑتی ہے۔ قرآنِ مجید کو شروع سے آخر تک سمجھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔ دینی معاملات میں مختلف ائمہ کرام کی رائے اور ان کے افکار کے بارے میں جاننا پڑتا ہے اور روشن ضمیر بزرگانِ دین کی سوانح عمری اور ان کی دینی خدمات اور طرزِ زندگی کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور ان تمام امور کی انجام دہی کے لئے خصوصی طور پر وقت نکالنا پڑتا ہے۔ شمالی لندن کی چند مساجد سے میرا رابطہ ہے اور پر امید ہوں کہ میں کم از کم ہفتہ میں ایک بار وہاں جایا کروں۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتی کہ میں کس فرقے یا مسلک کا عقیدہ اپناؤں گی۔ میزے نزدیک خدا ایک ہے اور اسلام ایک ہے۔
لباس کے بارے میں بات کرتے ہوئے لورین صاحبہ کہتی ہیں کہ اعتدال پسندانہ لباس کا انتخاب اتنا مشکل معاملہ نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ حجاب پہننے کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ باہر پہلے سے بھی زیادہ کم وقت میں جا سکتے ہیں کیونکہ حجاب کی وجہ سے آپ کو بہت سارا وقت بالوں کی آرائش میں ضائع نہیں کرنا پرے گا۔ چند ہفتے قبل جب میں نے پہلی بار اپنے سر پرحجاب باندھا تو مجھے بہت شرم سی محسوس ہوئی تھی۔ چونکہ ان دنوں سردی کا موسم تھا تو میراحجاب پہننا کسی نے محسوس نہ کیا، مگر گرمی کے موسم میں حجاب پہن کر نکلنا ایک چیلنج ہے، مگر بریطانیہ ایک روادار ملک ہے اور اب تک مجھے کسی نے حقارت کی نظروں سے نہیں دیکھا۔ حجاب کے ساتھ نقا ب میں اپنے لئے ضروری نہیں سمجھتی مگر برقع مجھے زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے۔ (جاری ہے)