شاہ یمن کا عجیب واقعہ

0

حضرت مولانا عبد الرحمن صفوریؒ مصنف نزہۃ المجالس فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کام میں تعجب ہی کیا ہے۔ میں نے کتاب ’’شرف المصطفی‘‘ میں دیکھا ہے کہ یمن (کعبہ سے یمین یعنی دائیں طرف ہونے کی وجہ سے عرب کے جنوب مشرق کے علاقہ کو یمن کہتے ہیں۔ یہی اس کی وجہ تسمیہ ہے) کا بادشاہ تبع اپنے شہروں سے لشکر کثیر کے ساتھ دنیا کو دیکھنے کیلئے نکلا اور اس کے ساتھ حکماء کی ایک جماعت کے علاوہ چار سو علماء تورات بھی ساتھ تھے۔ جب وہ مکہ مکرمہ میں پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اس کی طرف التفاف و دھیان نہ کیا، وہ اس پر بہت غضبناک ہوا۔ اس نے ارادہ کیا کہ کعبہ کو منہدم کردوں گا، مردوں کو قتل کر ڈالوں گا اور سب مال دولت لے لوں گا اور عورتوں کو گرفتار کر کے لے جاؤں گا۔ خدا کا کرنا ہوا کہ اس کے کان اور ناک سے نہایت بدبودار پانی نکلنا شروع ہوا۔ اس نے حکیموں سے اس کی متعلق دریافت کیا، وہ بولے کہ ہم دنیوی امراض کا علاج کرتے ہیں، آسمانی امراض کا علاج نہیںکرتے، وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہوا۔
جب رات ہوئی تو ان میں سے ایک حکیم نے کہا بادشاہ اگر اپنا ارادہ ظاہر کرے تو میں اس کا علاج کردوں گا۔ بادشاہ نے بھی اپنا دلی ارادہ صاف صاف ظاہر کردیا۔ حکیم نے کہا: اس ارادے سے فوراً باز آجا (معلوم ہوتا ہے کہ وہ حاذق حکیم جسے شاہی طبیب کہئے، روحانیت سے پوری طرح آشنا تھا، ہر دور میں صاحب بصیرت لوگ ہوتے ہیں) بادشاہ اپنے اس غلط ارادے سے باز آگیا۔ خدا کی شان کریمی بادشاہ نیت درست ہوتے ہی اچھا ہوگیا، پانی بہنا بند ہوگیا، پھر اسی وقت وہ ایمان لایا اور کعبہ پر اس نے پردہ لٹکایا۔ چنانچہ سب سے پہلے کعبہ پر اسی نے پردہ لٹکایا تھا، پھر یثرب (آپؐ کی آمد سے پہلے مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا) یعنی مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا اور اس کے چشمہ پر اترا۔ علماء یہود نے بالاتفاق وہاں اقامت گزین ہونے کی اسے رائے دی۔ اس سرزمین کا اس نے حال دریافت کیا۔ علماء نے کہا کہ پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اس سرزمین میں آئندہ خیر کثیر کا ظہور ہوگا۔ یہاں ہی نبی آخر الزماںؐ جن کا اسم گرامی محمدؐ ہے، سکونت پذیر ہوں گے۔ ہر چند کہ ان کی پیدائش گاہ مکہ ہے، لیکن وہ ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائیں گے۔ یہاں سب علماء یہود نے بادشاہ سے استدعا کی کہ ہمیں اس سرزمین پر رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ علماء یہود نے پھر بادشاہ کو کہا کہ ہم انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے صحیفوں میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ اخیر زمانے میں ایک نبی پیدا ہوں گے، محمدؐ ان کا نام ہوگا اور یہ مقدس سرزمین ان کا دارالہجرت ہوگی، جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہو چکا ہے۔ بالآخر بادشاہ نے وہاں سب کو قیام کرنے کی اجازت دی اور ہر ایک کیلئے علیحدہ علیحدہ مکان تیار کرایا اور سب کے وہاں نکاح کرائے اور ہر ایک کو مال عظیم دیا اور ایک مکان خاص نبی کریمؐ کیلئے تیار کرایا کہ جب نبی آخر الزماںؐ یہاں ہجرت فرما کر تشریف لائیں تو اس مکان پر قیام فرمائیں اور آپؐ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مجتبیٰ، احمد مصطفیؐ خدا کے آخری رسول برحق ہیں۔ اگر میری عمر آپؐ کی عمر (آمد) تک پہنچی تو میں ضرور آپ کا معین و مددگار ہوں گا۔ آخری شعر کے الفاظ یہ ہیں:
وجاھدت بالسیف اعدآئہ
و فرجت عن صدرہ کل غم
(اور آپ کے دشمنوں سے جہاد کروں گا اور ان کے مبارک دل سے ہر غم کو دور کروں گا)
اور پھر تبع بادشاہ نے اس خط پر مہر بھی لگائی اور خط ایک عالم کے سپرد کیا کہ اگر تم نبی آخر الزماںؐ کا مبارک زمانہ پاؤ تو میرا یہ عریضہ خدمت اقدس میں پیش کر دینا، ورنہ نسلاً بعد نسل اولاد کو یہ خط سپرد کر کے وصیت کردینا جو میں تم کو کررہا ہوں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ اسی عالم کی اولاد میں سے ہیں اور یہ مکان بھی وہی تھا جس کو تبع شاہ یمن نے فقط اسی غرض کیلئے تیار کرایا تھا کہ جب نبی آخر الزماںؐ ہجرت فرما کر تشریف لائیں تو اس مکان میں اتریں اور بقیہ انصار صحابہ کرامؓ ان چار سو علماء کی اولاد سے ہیں۔ چنانچہ جب آپؐ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہر آدمی کی تمنا تھی کہ جناب میرے غریب خانہ پر تشریف فرما ہوں۔ آپؐ نے فرمایا حق تعالیٰ کے حکم سے جہاں میری اونٹنی بیٹھے گی وہیں قیام ہوگا۔ چنانچہ خدا کے حکم سے آپؐ کی اونٹنی اسی مکان کے دروازے پر جا کر ٹھہری کہ جو تبع بادشاہ نے پہلے ہی سے آپؐ کے لئے تعمیر کرایا تھا۔
حضرت شیخ زید الدین مراغیؒ فرماتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ رسول اکرمؐ مدینہ منورہ میں حضرت ایوب انصاریؓ کے مکان پر نہیں اترے، بلکہ اپنے مکان پر ہی اترے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لئے کہ یہ مکان تو اصل میں آپؐ ہی کی نیت سے تیار کرایا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا قیام تو اس مکان میں محض آپؐ کی تشریف آوری کے انتظار میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آپؐ کی تشریف آوری کے بعد حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے وہ خط جس میں تبع بادشاہ کی طرف سے اشعار لکھے ہوئے تھے، آپؐ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ نے اسے پڑھا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: مرحبا بالاخ الصالح۔ پھر انہوں نے اس عریضہ کی تاریخ تحریر دیکھی اور حضرت کی تشریف آوری سے ملایا تو سات سو سال کا زمانہ ہوا تھا۔ (گلدستہ واقعات)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More