ایمپریس مارکیٹ کے اطراف ایک ہزار سے زائد دکانیں مسمار

0

امت رپورٹ
کے ایم سی کے عملے نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف قائم ایک ہزار سے زائد دکانیں مسمار کردیں۔ صدر میں جاری آپریشن کی زد میں 50 سال پرانا مصلیٰ بھی آگیا۔ دوسری جانب متاثرہ دکان دار میئر کراچی وسیم اختر کو بد دعائیں دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دور برطانیہ کی یادگار اس عمارت کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے میئر کراچی نے 10 ہزار سے زائد خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف 1044 دکانیں گرانے سے ان کا دو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے، کیونکہ ایک دکان بنانے پر 5 سے 25 لاکھ روپے خرچ گئے تھے۔ تاجروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ آج (پیر کے روز) میئر کراچی کے پاس جائیں گے کہ وعدے کے مطابق متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ انکار کی صورت میں ایمپریس مارکیٹ کے سامنے دوبارہ احتجاجی دھرنا شروع کیا جائے گا۔

کے ایم سی نے ڈی ایم سی ساؤتھ اور کنٹونمنٹ بورڈ کے ساتھ مل کر ایمپریس مارکیٹ کی دکانیں مسمار کرنے کا سلسلہ اتوار کی صبح سات بجے شروع کیا۔ تاجروں کی جانب سے ممکنہ مزاحمت کے اندیشے پر رینجرز اور پولیس کے علاوہ سٹی وارڈن بھی بلائے گئے تھے۔ دوسری جانب ہیوی مشینری کے ذریعے ٹوٹتی دکانیں دیکھ کر دکانوں کے مالکان آنسو بہاتے رہے۔ اس موقع پر تاجر اپنی دکانوں کو نشانہ بنانے والے میئر کراچی کو بد دعائیں دیتے رہے کہ دور برطانیہ کی عمارت کی اہمیت اجاگر کرنے کے چکر میں ہزاروں لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے تاجروں نے بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ سے متصل عمر فاروق مارکیٹ کے اندر پچاس سال سے قائم ’’مسجد معراج‘‘ نامی مصلیٰ بھی مسمار کر دیا گیا۔ مارکیٹ کے تاجر رہنما اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ یہاں باقاعدہ پیش امام رکھا گیا تھا۔ پانچ وقت کی اذان کے بعد باجماعت نماز ہوتی تھی۔ اطراف کے دکاندار اور خریدار نماز ادا کرتے تھے، جبکہ رمضان میں تراویح کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ ملبے کے قریب موجود سید علی خان کا کہنا تھا کہ وہ 30 سال سے یہاں کپڑے کا کاروبار کر رہا تھا۔ وہ اس مصلے میں اذان بھی دیتا تھا اور باقاعدگی سے نماز پڑھتا تھا۔ اس کی کپڑے کی دکان بھی گرا دی گئی ہے۔ یونس خان کا کہنا تھا کہ وہ 5 سال سے یہاں باجماعت نماز ادا کر رہا تھا۔ غلام محمد کا کہنا تھا کہ 35 سال سے یہاں دکانداری کے ساتھ ساتھ اس مصلے میں ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں باجماعت ادا کرتا تھا۔ محمد قیصر کا کہنا تھا کہ 15 سال سے اس مارکیٹ میں کام کے دوران مصلے میں اذان بھی دیتا رہا اور باجماعت نماز بھی ادا کرتا تھا۔
انہدامی کارروائی کے دوران عمر فاروق مارکیٹ کی ایک دکان میں شارٹ سرکٹ سے آگ بھی لگ گئی تھی۔ دکانیں مسمار کرنے کا سلسلہ صبح سے شام تک جاری رہا۔ ایک ہزار سے زائد ان دکانوں میں کپڑے، سبزی، گوشت، پان، چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافیاں، لوہے کی اشیا، پتنگ کی دکانیں، خشک میوہ جات، مصالحہ جات، انڈوں، پرندوں، چائے کی پتی کی دکانوں کے ساتھ ساتھ 5 ہوٹل بھی تھے۔ تاجروں کے مطابق آپریشن سے 10 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ صدر میں تجاوزات کے خاتمے کے دوران ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کی دکانیں گرانے کے عمل کو دھرنا دے کر دکانداروں نے رکوا دیا تھا۔ میئر کراچی وسیم اختر یہ تسلیم کر رہے تھے کہ کے ایم سی نے یہ دکانیں لیز پر دی تھی۔ تاہم اب معاہدہ ختم کر دیا گیا ہے، اور جو دکاندار تعاون کرے گا، اس کو متبادل جگہ دی جائے گی۔ تاہم پیر کی صبح آپریشن کا آغاز کر دیا گیا۔ جس دوران انہدامی کارروائی جاری تھی، دکاندار صدمے سے نڈھال ہوکر دور کھڑے دیکھتے رہے۔ جبکہ پولیس کی موجودگی میں کے ایم سی کے عملے کے بعض افراد مسمار دکانوں سے نکلنے والا سامان سمیٹتے رہے اور ٹرکوں میں ڈالتے رہے۔ دوسری جانب چور اچکے بھی سرگرم رہے۔ پولیس نے ایک درجن سے زائد افراد کو اشیا چوری کرتے ہوئے حراست میں لے لیا تھا۔
تاجر رہنما محمد اقبال کاکڑ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ رات انہوں نے دکانداروں کو مزاحمت سے روکا تھا۔ آج پیر کو تاجروں کا وفد میئر کراچی سے ملے گا کہ انہیں متبادل جگہ دی جائے۔ اگر انکار کیا گیا یا تاخیری حربے استعمال ہوئے تو منگل سے دوبارہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا آغاز کردیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعمیر کی مد میں فی دکان 5 لاکھ سے 25 لاکھ روپے تک خرچ آیا تھا۔ لوگوں نے قرضے لئے، بیوی کے زیورات بیچے، تب جاکر کاروبار شروع کیا تھا۔
دوسری جانب صدر کی تاریخی عمارت ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے تجاوزات ختم ہونے کے بعد اس کی مکمل عمارت کو دیکھنے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد صدر میں آتی جاتی رہی اور لوگ ایمپریس مارکیٹ کی تصاویر بھی بناتے رہے۔ جبکہ رات گئے تک تاجروں کی بڑی تعداد دکانوں کے ملبے سے بچی کھچی اشیا جمع کرتی اور محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں مصروف رہی۔ بنارس خان نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ ان کی یہاں چائے کی پتی کی دکان تھی، جس کیلئے انہوں نے ایک ماہ قبل ہی 50 ہزار روپے خرچ کرکے نئے ریک اور شیلف بنوائے تھے، جو اب ٹوٹ گئے، تاہم انہوں نے اپنا سامان نکال لیا تھا۔ حاجی رئیس زادہ کا کہنا تھا کہ ’’ہماری جوتوں کی دکان تھی۔ ہم نے رات کو سامان نکال لیا تھا کہ اب ہمیں وسیم اختر نہیں چھوڑے گا۔ مگر ہماری کرسیاں اور دیگر سامان یہیں تھا کہ صبح لے جائیں گے۔ لیکن صبح آئے تو دیواریں مسمار ہو چکی تھیں اور سامان بھی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا‘‘۔ شہزاد خان کا کہنا تھا کہ ’’اپنی دکان میں ہم نے 2 لاکھ روپے خرچہ کیا تھا، مگر سامان ہی نکال سکے‘‘۔ معلوم رہے کہ مذکورہ مسمار ہونے والی مارکیٹوں میں متعدد دکاندار ایسے بھی تھے جن کی عمر بھر کی جمع پونجی یہی دکانیں تھیں۔ اس حوالے سے حاجی بختیار خان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے کسی اور سے یہ دکان 10 لاکھ روپے میں خریدی تھی، جس کا ہر 6 ماہ بعد چالان جمع کراتا تھا۔ تاہم اب مجھے وہ 10 لاکھ تو کہیں سے بھی نہیں ملیں گے‘‘۔ خشک میوہ جات کی دکان چلانے والا شوکت خان ملبے پر پریشان حال موجود تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں 40 سال قبل خیبر پختون سے کراچی آیا تھا۔ جمع پونجی لگا کر اور قرضہ لے کر دکان بنائی تھی۔ اس دکان پر کم از کم 20 لاکھ روپے لگا چکا تھا۔ میرے خاندان کے 18 افراد اور 4 ملازمین کے خاندان کے 23 افراد کو اس دکان سے روٹی مل رہی تھی‘‘۔ دکاندار محبوب خان کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں سیاست ہو رہی ہے۔ راشی افسران جان بوجھ کر ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ سائن بورڈ کے ساتھ شٹر بھی توڑے جائیں اور دکانوں کے اندر تک نقصان کیا جارہا ہے۔ دکاندار نصیب اللہ کا کہنا تھا کہ وہ 60 سال سے دکان چلا رہا تھا، 5 لاکھ روپے سے زائد کا خرچہ کیا۔ اب ایک گھنٹے میں دکان مسمار کردی گئی۔ غم زدہ دکاندار محمد اسلم کا کہنا تھا کہ اسے 10 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ متبادل جگہ نہ ملے گی تو ٹھیلہ لگاؤں گا۔ خشک میوہ جات مارکیٹ کے تاجر رہنما فاروق، محمد زبیر اور ندیم نامی دکان دار بھی غم سے نڈھال ہو کر کے ایم سی عملے کو بد دعائیں دے رہے تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More