منصور اصغر راجہ
قوم یہود نے بھی کیا عجب خصلت پائی ہے کہ جہاں بھی گئے، اپنی عیاری، مکاری، انسانیت دشمنی اور دجل و فریب کی داستاں چھوڑ آئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انہیں جب بھی کہیں سکون سے بیٹھنے کے لیے ذرا سی بھی جگہ نصیب ہوئی، ان کی رگِ شیطنت پھڑک اٹھی اور انہوں نے اپنے محسنین کی ہی جڑیں کاٹنی شروع کردیں۔ بغداد میں انہیں برابر کے حقوق حاصل تھے۔ انہوں نے اسلام کے بنیادی عقائد میں تھگلی لگا کر اسے جڑ سے اکھیڑنا چاہا، لیکن جب دیکھا کہ عبد اللہ کے دُرِّ یتیمؐ پر نازل ہونے والے اس دینِ مبین کا محافظ خود خدائے بزرگ و برتر ہے تو انہوں نے اپنی سازشی سرگرمیوں کا نشانہ اپنے محسنین یعنی عباسی خلفاء کو بنا لیا اور بالآخر ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی اینٹ سے اینٹ ٹکرا کر ہی دم لیا۔ روم نے انہیں پناہ دی تو اس عظیم سلطنت کے ٹکڑے ٹکرے کرکے اس پر عیسائیت کی چھاپ لگا دی۔ ہسپانیہ میں انہیں اس قدر عروج حاصل ہوا کہ ان کے پیروکار مقتدر عہدوں تک پہنچے، بلکہ انہیں وزیر اعظم تک کے منصب سے نوازا گیا، لیکن انہوں نے ہسپانیہ سے اسلام کو برطرف کرکے مسلمانوں کاقتلِ عام کرایا۔ فرانس میں انقلاب برپا کرا کے اپنے لیے شہری حقوق اور بادشاہت کے لیے تختہ دار حاصل کیا۔ روس نے انہیں اپنے ہاں پناہ دی تو انہوں نے زارِ روس اور اس کے خاندان کے لیے موت کا پروانہ جاری کرا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم ہر دور میں راندئہ درگاہ رہی۔
مشہور امریکی مصنف اینڈریو کیرنگٹن ہچکاک کی بیسٹ سیلر کتاب The Synagogue Of Satan کے دیباچہ میں ٹیکس مارس لکھتے ہیں: ’’اس کرئہ ارض پر ہونے والی خونریزی کا ذمہ دار صرف اور صرف ایک گروہ ہے۔ اس شیطانی گروہ کی تعداد قلیل ہے، لیکن اس کی مثال آکٹوپس کی طرح ہے، جس نے اپنے بے شمار پنجوں سے ساری انسانیت کو جکڑ رکھا ہے۔ دنیا کی تمام خفیہ، زمین دوز اور خطرناک تنظیمیں امریکی اور پوری محکمہ داخلہ و خارجہ ان کے تابع فرمان رہنے پر مجبور ہیں۔ جس شیطانی گروہ کا میں حوالہ دے رہا ہوں۔ آج کی دنیا اس کی ڈگڈگی پر بندر کی طرح ناچ رہی ہے۔‘‘
اسی دیباچے میں پروفیسر جیمز پیٹرس کی کتاب ’’The Power Of Israel In The United States‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، جو بات کو مزید کھول کر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہودی امریکی آبادی کا بمشکل 2.2 فیصد ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امیر ترین امریکیوں میں سے 25 سے 30 فیصد یہودی ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت پر دہشت طاری کی ہوئی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو کبھی جنگ کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں، کبھی ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ کبھی دنیا کی معیشت کو اوپر اور کبھی نیچے لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے امریکی مسلح افواج کو مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کا نگہبان بنا کر بٹھا رکھا ہے۔ یہ لوگ جب چاہتے ہیں، امریکہ کو دنیا کے کسی بھی حصے میں جنگ میں جھونک دیتے ہیں اور جب ان کا حکم ہوتا ہے تو امریکی جنگ سے باہر نکل آتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج امریکہ عظیم اسرائیل کی ایک کالونی بن چکا ہے، جس کی حیثیت اسرائیل کے باڈی گارڈ اور جلاد سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہم امریکی ان یہودیوں کے کرائے کے سپاہی ہیں۔ اسرائیلی ہمارے کیمپ کمانڈنٹ ہیں، جن کے حکم پر ہم دنیا بھر کے بے گناہ انسانوں کا بلا دریغ قتل کرتے ہیں‘‘۔
اینڈریو کیرنگٹن ہچکاک نے اپنی کتاب میں قومِ یہود کی ملک بدریوں کی پوری تفصیل دی ہے۔ 1290ء میں انہیں برطانوی بادشاہ کنگ ایڈورڈ اول کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے پر انگلینڈ سے نکال دیا گیا۔ 1649ء میں اولیور کرامویل نے ان کا برطانیہ میں دوبارہ داخلہ ممکن بنایا۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے۔ چنانچہ 1688ء میں انگلینڈ میں باقاعدہ قانون سازی کی گئی کہ یہودیوں کو وہاں سے نکال کر ان کے داخلے پر
پابندی لگا دی جائے۔ اگلے 33 برس تک وہ قانون نافذ رہا۔ بالآخر 33 برس بعد یہودیوں نے اپنے ایک ڈچ داماد شہزادے کے ذریعے برطانیہ میں اپنا دوبارہ داخلہ ممکن بنایا۔ انگلینڈ کے علاوہ بھی کئی ممالک سے وقتاً فوقتاً یہود کو ملک بدر کیا جاتا رہا، جن کی تفصیل اینڈریو کیرنگٹن ہچکاک نے یوں بیان کی ہے کہ یہود کو 1182ء میں فرانس،1276ء میں بولیویا، 1290ء میں انگلینڈ، 1306ئ، 1322ء اور 1349ء میں فرانس، 1360ء میں ہنگری، 1370ء میں بلجیم، 1380ء میں سلواکیہ، 1420ء میں آسٹریا، 1444ء میں ہالینڈ،1495ء میں لٹونیا،1496ء میں پرتگال اور نیپلز، 1540ء میں اٹلی،1541ء اور 1557ء میں پرا گ، 1669ء میں ویانا، 1744ء میں سلواکیہ اور 1891ء میں ماسکو سے نکالا گیا۔
اس تفصیل کے بعد اینڈریو کیرنگٹن ہچکاک نے ایک یہودی مصنف کا حوالہ پیش کیا ہے، جس کا کہنا تھا کہ ’’اگر یہودیوں کو کسی ایک ملک سے ایک مذہب یا ایک مخصوص نسل کے لوگوں نے اسی طرح باربار بے دخل کیا ہوتا تو ان پر متعصب ہونے کا الزام لگایا جاسکتا تھا۔ لیکن مختلف ممالک، مختلف مذاہب اور مختلف نسلوں کے لوگوں نے یہ سب کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ برائی کی جڑ ’’اسرائیل‘‘ ہے، اسرائیل کے خلاف لڑنے والے نہیں۔‘‘
دنیا کی اقتصادیات پر قبضہ اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہر قسم کی دہشت گردی اور مختلف قوموں اور ملکوں کو آپس میں لڑانا قومِ یہود کے خاص اہداف رہے ہیں۔ انہوں نے بینک آف انگلینڈ اور سینٹرل بینک آف یونائٹیڈ اسٹیٹس قائم کرکے برطانیہ و امریکہ کی رگِ جاں کو اپنے پنجے میں جکڑ لیا۔ امریکی صدر تھامس جیفرسن نے امریکی معیشت کو یہود کے شکنجے سے آزاد کرانے کی کوشش کی تو انہوں نے 1812ء میں برطانیہ اور امریکہ کی جنگ شروع کرا دی۔ امریکی صدر اینڈریو جیکسن نے سینٹرل بینک کو امریکہ سے نکالنے کی کوشش کی تو ان پر قاتلانہ حملہ کرا دیا۔ امریکہ کو یہود کی معاشی دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے کوشاں صدر ابراہم لنکن نے تو 1865ء میں کانگریس سے اپنے سالانہ خطاب میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’’مجھے دو خطرناک دشمنوں کا سامنا ہے۔ میرے سامنے ناردرن آرمی ہے اور مالیاتی ادارے میری پشت سے حملہ کر رہے ہیں۔ ان دونوں میں میرا زیادہ خطرناک دشمن میری پشت پر ہے۔‘‘ اور پھر دوسری بار عہدئہ صدارت سنبھالنے کے محض 40 روز بعد ابراہم لنکن ایک قاتلانہ حملے میں مارے گئے۔
اینڈریو کیرنگٹن ہچکاک کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ یہود کی پالیسیوں اور اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نپولین کے دور میں یہود فرانس اور برطانیہ کو یکساں طور پر سرمایہ فراہم کرکے آپس میں لڑاتے رہے۔ موجودہ دور میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سری لنکن سیکورٹی فورسز اور تامل باغیوں کو ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ٹریننگ اسکول میں ایک دوسرے کے قتل عام کے لیے تین تین ہفتے کا تربیتی کورس کراتی رہی۔ 1839ء میں چین کے مانچو حکمرانوں نے چینی قوم کو افیمی بنانے کی یہودی سازش روکنے کی کوشش کی تو برطانیہ اور چین کی لڑائی کرا دی گئی، جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ بالآخر چار سالہ جنگ کے بعد مانچو حکمرانوں کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے چین میں افیون کی تجارت کو قانونی تحفظ دینا پڑا۔
1835ء سے 1853ء تک جدید الجزائر کے بانی امیر عبد القادر الجزائری فرانسیسیوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ اس دوران میں ایک طرف یہودی تاجر امیر عبد القادر الجزائری کو اسلحہ فروخت کرتے رہے اور دوسری طر ف اُن کے خلاف فرانسیسیوں کو مخبری بھی کیا کرتے تھے۔ طالبان حکومت کے قیام سے پہلے افغانستان دنیا کی کل ہیروئن کا 75 فیصد پیدا کررہا تھا۔ 2000ء میں ملا عمرؒ نے افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی، جس پر منشیات فروش یہود تلملا اٹھے۔ اینڈریو کیرنگٹن ہچکاک کا دعویٰ ہے کہ2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ یہ یہود ہی تھے جو ایک طرف کارل مارکس سے کمیونزم اور دوسری طرف فرینکفرٹ کے رہائشی کارل رٹر سے فلسفہ جبریت کے بارے میں کتابیں لکھواتے رہے، جس کے نتیجے میں کمیونزم، فاشزم اور نازی ازم جیسے فلسفوں نے جنم لیا اور نتیجتاً دنیا کو جنگِ عظیم اول و دوم کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونا پڑا۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل کی جانب تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ اس سلسلے میں فوری طور پر دو بڑے منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے باخبر ذرائع کے مطابق پہلا منصوبہ تل ابیب سے لے کر گوادر کے بالمقابل واقع سلطنتِ اومان تک ریلوے لائن بچھانے کا ہے۔ اسرائیل یہ لائن بچھانے کا فیصلہ کر چکا ہے، صرف اعلان باقی ہے، جس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے لیے ساری فنڈنگ امریکہ کرے گا۔ عربوں کو رام کرنے کے لیے اسرائیل سفارتی سطح پر متحرک ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم اسرائیل اومان کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیر کھیل نے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ ایک اسرائیلی وزیر قطر بھی جا چکے ہیں، جبکہ کویت سے بھی تل ابیب رابطے میں ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کی سرپرست عالمی استعماری قوتیں ’’نیا فلسطین‘‘ بنانے جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں مصر کو راضی کیا جا چکا ہے، جو صحرائے سینا میں غزہ شہر کے رقبے سے دگنا رقبہ خالی کر دے گا، جہاں ایک نیا شہر بسایا جائے گا۔ شہر بستے ہی غزہ کی فلسطینی آبادی کو فی الفور وہاں منتقل کیا جائے گا، جس کے فوراً بعد نام نہاد عالمی برادری اسے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دے گی۔ اس منصوبے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ اگر فلسطینی شہریوں نے غزہ کو چھوڑنے اور نئے فلسطین میں آباد ہونے سے انکار کیا تو انہیں غزہ سے زبردستی نکالنے کے لیے وہاں اقوام متحدہ کے فوجی دستے اُتارے جائیں گے، جن کی غالب اکثریت عرب فوجی دستوں پر مشتمل ہو گی۔ اس منصوبے کے نقشے تک تیار ہو چکے ہیں اور فنڈز بھی مختص کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اس کے اعلان کے لیے بھی مناسب وقت کا انتظار ہے، کیونکہ علاقائی سطح پر ان دونوں منصوبوں کی راہ میں فی الحال سعودی عرب اور اُردن رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
گریٹر اسرائیل منصوبے کے سلسلے میں اسرائیل واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ خیال کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس نظریاتی ریاست سے اسرائیل اول روز سے ہی خائف ہے۔ 1984ء میں اسرائیل نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ ڈیزائن کیا، جس میں بھارت کو شامل کرکے اپنے لڑاکا طیارے پٹھانکوٹ ایئر بیس پر لا کھڑے کیے۔ لیکن جب پاکستان کے غیرت مند حکمران جنرل ضیاء الحق شہیدؒ نے بھارت کو آنکھیں دکھائیں تو دہلی سرکار نے تل ابیب کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے کہ مائی باپ جائو یہاں سے، کیوں اپنے ساتھ ہمیں بھی مروانا چاہتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کا ڈنک نکالنے کے لیے درونِ خانہ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے تل ابیب کو تسلیم کیے جانے کی مہم چلائی گئی، جس کی گونج اب پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کی خاتون رکن اسمبلی کی طرف سے پارلیمنٹ میں اسرائیل کے حق میں کی گئی تقریر کو کئی روز گزر چکے، لیکن ملک کے کسی گوشے سے اس کے خلاف تاحال کوئی احتجاجی آواز بلند نہیں ہوئی۔ شاید عمران خان ایسا ہی نیا پاکستان چاہتے ہیں۔ لیکن اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلانے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بے شک اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے اُچھلتے پھریں، لیکن قومِ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی طرف جس نے بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا، انہوں نے اسی کی جڑیں کاٹنی شروع کردیں۔ حق تعالیٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قومِ یہود اور اس کے دیسی و ولایتی ٹائوٹوں کی سازشوں اور شرور سے محفوظ رکھے۔