لندن؍ایمسٹرڈیم؍اسلام آباد(رپورٹ:توصیف ممتاز ؍ نمائندہ امت ) ملعونہ آسیہ مسیح کے معاملے پر مغربی ممالک نے متحد ہو کر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت پر اچانک دباؤ بڑھا دیا ہے ۔ پاکستان کو تجارتی مراعات کی بندش کی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔دباؤ بڑھانے کی پالیسی کے تحت ہالینڈ نے ملعونہ کے وکیل کو پناہ دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات اپنا بیشتر سفارتی عملہ واپس ایمسٹرڈیم بلا لیا ہے۔مغرب کے دیگر ممالک یہی ہتھکنڈے آزمانے والے ہیں۔یورپ اور لاطینی امریکہ کے 28ممالک 230 اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم عمران خان کے نام خط میں ملعونہ آسیہ مسیح کوپاکستان سے بحفاظت باہر بھجوانے کا مطالبہ کیا ۔ یورپی یونین کے صدر انٹونیو تاجانی نے وزیر اعظم عمران خان جبکہ کینیڈا کے وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر آسیہ مسیح کے معاملے پر بات کی ہے ۔ مغربی ممالک کی جانب سے قادیانیوں کی حامی مسلم ناموں والی تنظیموں بھی آگے لایا جانے لگا ہے۔مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ بڑھانے کے مزید ہتھکنڈے سامنے آنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ملعونہ آسیہ مسیح کے معاملے پر مغربی ممالک نے متحد ہو کر تحریک انصاف کی حکومت پر اچانک دباؤ بڑھا دیا ہے ۔ پاکستان کو تجارت کی بندش کی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔دباؤ بڑھانے کی پالیسی کے تحت ہالینڈ نے ملعونہ کے وکیل کو پناہ دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات اپنا بیشتر سفارتی عملہ واپس ایمسٹرڈیم بلا لیا ہے۔ ہالینڈ کے وزیر خارجہ سٹیف بلوک نے سرکاری ریڈیو این پی او سے گفتگو میں اسلام آباد کے اپنے سفارت خانے کے بیشتر عملے کو واپس بلائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس معاملے پر پاکستانی حکام سے بات کی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ڈچ سفارتی عملے کو بلانے کی وجہ وہ دھمکیاں بنیں ،جو آسیہ کے وکیل سیف الملوک کو ہالینڈ میں پناہ دینے کے بعد سے دی جا رہی ہیں۔سفارت کاروں کو دھمکیاں ملنا بدقسمتی کی بات ہے۔دھمکیوں کی وجہ سے ہی پیر کو سفارتخانہ کچھ دیر کے لیے بند بھی کرنا پڑا تھا اور جمعہ کو حالات قابو سے باہر ہونے پر سفارتخانے کو معمول کا کام روکنا پڑا تھا ۔آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے چند روز بعد ہی اس کا وکیل سیف الملوک ہالینڈ چلا گیا تھا ،جہاں اسے عارضی پناہ دینے کا اعلان کیا گیا ۔ سیف الملوک نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے قتل کی دھمکیاں دی گئیں ،جس پر وہ جلا وطن ہوا۔ ادھر انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیم اے ڈی ایف کے جنرل مینجر پال کولمین کا کہنا ہے کہ یورپ اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے28 ممالک کے230 ارکان پارلیمنٹ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملعونہ آسیہ مسیح کوپاکستان سے بحفاظت نکالے ۔ پال کولمین نے یورپی حکومت کی جانب سے آسیہ کو پناہ دینے پر تذبذب پریشان کن قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم کے نام خط میں پال کولمین کا کہنا تھا کہ آسیہ کے معاملے سے ہی دنیا کو پتہ چلے گا کہ پاکستان کی حکومت قانون کی بالادستی چاہتی ہے یا سیاسی مفادات چاہتی ہے۔پال کول مین کا کہنا ہے کہ یورپ اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے 28 ممالک کے 230 ارکان پارلیمنٹ سمجھتے ہیں کہ عدالت سے رہائی ملنے کے باوجود آسیہ کا خفیہ مقام پر قیام سزائے موت سے کم نہیں ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالتی فیصلے پر دائر نظر ثانی کی درخواست منظور کرنے کی وجہ قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔اس معاملے میں آگے جو کچھ ہوگا ، اسی سے پتہ چلے گا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے یا سیاسی مفاد کو مد نظر رکھا جائے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کیتھولک عیسائیوں کی امدادی تنظیم میسیو آچن کے صدر پریی لیٹ کلازکرامر 9 برس سے اس کیس کیلئے رقم خرچ کر رہا ہے ۔دریں اثنا ملعونہ آسیہ کو پاکستان سے باہر لے جانے کی کوششوں کے پیش نظر یورپی یونین کے صدر انٹونیو تاجانی نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کیا ہے ۔اس موقع پر اتفاق کیا گیا کہ دنیا بھر میں تمام مذاہب کا احترام کیا جانا چاہئے۔وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے یورپی یونین کے صدر پر زور دیا کہ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام ضروری ہے ۔مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے انفرادی بات چیت اور مکالمہ ناگزیر ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ کا مکمل احترام کرتے ہیں ۔پاکستانی شہری کے طور پر آسیہ مسیح اور ان کے اہلخانہ کو آئین میں دیئے گئے تمام حقوق حاصل ہیں۔وزیراعظم نے حکومت اور پاکستانی عوام کی جانب سےگستاخانہ خاکوں کے مقابلوں پر تحفظات سے آگاہ کیا ۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ یورپی ممالک اس طرح کے اشتعال انگیز واقعات سے بچیں۔مسلمانوں کی مذہبی حساسیت، خاص طور پر حضرت محمدؐ کے احترام کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیں۔انہوں نے یورپی کورٹ برائے انسانی حقوق کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جس میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گستاخانہ عمل کی اجازت نہیں۔وزیر اعظم نےامید ظاہر کی کہ یورپی ممالک عدالت کے اس فیصلے پر عمل کریں گے ۔انٹونیوتاجانی نے آسیہ مسیح اور اس کے خاندان کی حفاظت اور سیکورٹی یقینی بنانے پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور یقین دہانی کرائی کہ یورپی پارلیمنٹ پاکستان سے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ یورپی پارلیمنٹ میں آسیہ مسیح کے حوالے سے بحث ملتوی کر دی گئی ہے۔دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کینیڈین ہم منصب کرسٹیا فری لینڈنے فون کر کے آسیہ کے معاملے پر بات کی۔ ترجمان وزارت خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کرسٹیا فری لینڈ کے ٹیلی فون کے بعد اپنی ٹویٹس میں کہا کہ کینیڈین وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی سے دیگر امور کے علاوہ آسیہ کے معاملے پر بھی بات کی۔اس موقع پر کینیڈا کی وزیر خارجہ نے سپریم کورٹ کے جرأت مندانہ فیصلے اور وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کو مثبت قرار دیتے ہوئے سراہا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کینیڈین ہم منصب کو بتایا کہ آسیہ پاکستانی شہری ہے اور پاکستان اس کے تمام قانونی حقوق کا احترام کرتا ہے ۔ کرسٹیا فری لینڈ کے فون سے قبل اپنے انٹرویو میں کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ان کا ملک آسیہ کو پناہ دینے کے سلسلے میں پاکستان سے بات کر رہا ہے۔پاکستان میں صورتحال ابترہونے کا ہمیں بھی احساس ہے۔کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی نے بھی ٹروڈو فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے آسیہ اور اس کے اہلخانہ کو پناہ دینے کا مطالبہ کر رکھا ہے ۔علاوہ ازیں یورپی ممالک آسیہ کے معاملے پر نام نہاد مسلم نام والی تنظیموں کو آگے کرنے لگے ہیں ۔ جرمنی میں قادیانیوں کی اتحادی نام نہاد مسلم تنظیم زیڈ ایم ڈی نے ایک دعوت نامہ برلن میں تعینات پاکستانی سفیر کے حوالے کیا ، جس کے ذریعے اس نے پاکستان سے نکلنے پر ملعونہ کی جرمنی میں میزبانی کی پیشکش کی ہے۔زیڈ ایم ڈی نے2017میں’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کیخلاف برلن میں مظاہرہ کیاتھا،جس میں قادیانی جماعت بھی شریک ہوئی ،تاہم جرمنی کی سب سے بڑی مسلم تنظیم نے مظاہرے کا بائیکاٹ کیا تھا۔زید ایم ڈی کے رہنما ایمن مازیک نے اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے پاکستانی سفیر کو آسیہ مسیح جرمنی بلانے کا باقاعدہ دعوت نامہ دیدیا ہے اور ہم ملعونہ کی مدد کے خواہش مند ہیں۔جرمن حکومت اس معاملے میں ہم مسلمانوں پر انحصار کر سکتی ہے۔یہ جرمنی کی کثیر المذہبی شناخت و دنیا کے لیے کھلے پن کی روایت کی روح کے عین مطابق ہوگا ۔ ہر کسی کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہونا چاہئے اور ہر کسی کو آزادانہ اپنے عقیدے پر عمل درآمد کا حق حاصل ہے۔انتہا پسنداقلیت کیخلاف ہمارا موقف بہت واضح ہے ۔ یہ اقلیت مذہب کا غلط استعمال کرتی ہے اور یہ لوگ اپنی سیاست کیلئے انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پاکستان میں مذہبی شدت پسندی سے ہمیں جرمنی میں دائیں بازو کے شدت پسندوں اور اے ایف ڈی نامی سیاسی جماعت کے کچھ حلقوں کی یاد آتی ہے، جو جرمنی کو نسلی طور پر شدھ کرنے کے مطالبے کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post