حضرت علامہ ابن جوزیؒ خلیفہ معتضد باﷲ عباسی کے کسی خادم خاص سے روایت کرتے ہیں کہ خلیفہ ایک دن قیلولہ (دوپہرکو کھانا کھانے کے بعد قدرے آرام کرنا یہ مسنون عمل ہے) کر رہے تھے کہ یکدم اُٹھ بیٹھے۔ ہم تمام لوگ وہاں موجود تھے، انہوں نے بیدار ہونے کے بعد ہمیں زور سے آواز دی۔ ہم فوراً حاضر خدمت ہوئے تو انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ فوراً دریائے دجلہ کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ وہاں کنارے پر تمہیں ایک خالی کشتی ملے گی، جو دریا کی دوسرے طرف روانہ ہونے والی ہے تو اس کے ملاح کو پکڑ کر میرے پاس لے آؤ اور کشتی کی نگرانی کرتے رہو۔
راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ بھاگتے ہوئے دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ واقعی کنارے پر ایک چھوٹی سی کشتی لگی ہوئی ہے اور ملاح کے علاوہ اس میں اور کوئی آدمی نہیں ہے۔ ہم ملاح کو پکڑکر لے آئے اور خلیفہ کے حضور پیش کردیا، ملاح کی نظر جب خلیفہ پر پڑی تواس کی گویا جان ہی نکل گئی۔
خلیفہ نے غضب ناک نظروں سے دیکھتے ہوئے پُر جلال آواز سے کہا: او ملعون! تو نے آج جس طرح ایک عورت کو قتل کیا ہے، وہ تمام واقعہ مجھے سچ سچ بتادے، نہیں تو ابھی بھرے دربار میں تیری گردن اُڑا دوں گا۔ کہتے ہیں کہ اس (ظالم) کے حواس باختہ ہوگئے، تاہم لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ بولا، جی ہاں امیر المؤمنین! آج میں اپنی کشتی میں سواری کے انتظار میں تھا کہ اچانک ایک عورت آ وارد ہوئی۔ اس نے انتہائی قیمتی کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے اور قیمتی زیورات سے لدی ہوئی تھی اور خوبصورت ایسی تھی کہ نہ پوچھیں (یاد رہے کہ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے پردے اور محرم کے ساتھ سفر کرنے کا حکم فرمایا ہے) میراجی للچا گیا، دھو کے سے اس پر قابو پا کر اس کا منہ باندھا اور پھر اس کے تمام زیورات اور کپڑے اُتار کر اسے دریا میں ڈبو دیا۔ (یہ بات یقینی ہے کہ بُرائی ہو یا نیکی، پتھر کے اندر سے بھی خدا جل شانہ اسے ظاہر فرما دیتے ہیں)
پھر مجھے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر میں تمام سامان اپنے گھر لے آیا تو کل کلاں کسی کی نظر پڑ سکتی ہے اور اس طرح میں پکڑا جاؤں گا۔ اس لئے میں نے یہ طے کر لیا کہ گھر آنے کے بجائے واپس شہر کو جانکلتا ہوں، وہاں چند ایام رہ کر آجاؤں گا، اتنی دیر میں عورت کے قتل کی خبر بھی ٹھنڈی پڑ جائے گی، لیکن میرے نکلنے سے پہلے ہی آپ کے یہ سپاہی وہاں پہنچ گئے اور میں پکڑا گیا۔
خلیفہ (جو انتہائی متقی اور پر ہیزگار تھا) نے پوچھا: ظالم وہ زیورات وغیرہ کہاں ہیں؟ ملاح نے کہا: حضور کشتی کے نچلے حصے میں پڑی ہوئی چٹائیوں کے نیچے۔ تب خلیفہ نے (اس کے اقبال جرم پر) حکم دیا کہ وہ تمام زیورات وغیرہ نکال کر لے آؤ۔ دیکھا تو وہ زیورات واقعتاً بہت زیادہ اور بیش قیمت تھے، پھر مال برآمد ہونے پر حکم صادر کیا کہ اس عورت کے ورثا اور لواحقین کو تلاش کرو تاکہ یہ زیور وغیرہ ان کے حوالے کیا جاسکے۔ پھر تین دن مسلسل بغداد کے گلی کو چوں میں منادی کر کے اس کے ورثا کاسر اغ ملا تو انہیں بلا کر ساری صورت حال سے آگاہ کرنے کے بعد عورت کا تمام مال اس دیانت داری وایمان داری سے اُن کے حوالے کیا گیا کہ ایک چیز بھی کم نہ ہوئی۔
خلیفہ نے ان ورثاء کے سامنے حکم دیا کہ اس قاتل وسفاک اور ظالم ملاح کو لے جاؤ اور ان کے رُوبرو اسے ٹھیک اسی جگہ پر ڈبو دو، جہاں اس نے اس مظلومہ عورت کو ڈبویا تھا۔
اہل دربار نے خلیفہ سے پوچھا: کہ امیرالمؤمنین آپ کو اس واقعہ کا پتہ کیسے چلا؟ امیر المؤمنین نے جواب دیا کہ اس لمحے جب میں سویا ہوا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک معمر شخص جس کے بال، داڑھی اور کپڑے تک سٖفید تھے، وہ میرا نام لے کر بلند آواز سے کہہ رہا ہے: اس وقت جو کشتی دریا میں اتری ہے، اس نے آج ہی قتل کیا ہے اور پھر اس سے قصاص و انتقام لو اور جیسا کہ تم لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، ایسے ہی ہوا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post