عباس ثاقب
میریبات سن کر عظمت اللہ نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔ ’’کوئی مسئلہ نہیں ہے بھائی، آپ بے فکر ہوکر جاؤ۔ میں پہنچ جاؤں گا اپنے ٹھکانے‘‘۔
ان کا شکریہ ادا کر کے میں یاسر بھٹ کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’اگر آپ مجھے تفصیل سے ظہیر تک پہنچنے کا طریقہ سمجھا دیں تو میں بہت ممنون ہوں گا‘‘۔
جواب میں وہ مسکرائے اور گویا ہوئے۔ ’’یار ہم دیہاتی لوگ ہیں، تمہارا یہ دلّی والوں کا پرتکلف طرزِ گفتگو ہمیں شرمندہ کر دیتا ہے۔ میں نے کہا ناں تم میرے لیے ظہیر جیسے، یعنی چھوٹے بھائی کی طرح ہو۔ پتا پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ یوں کہو کہ یاسر اٹھو، ظہیر کے پاس چلنا ہے‘‘۔
ان کے خلوص اور شفقت سے لبریز لہجے نے مجھے خود شرمندہ کر دیا۔ انہوں نے میرا شانہ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’ایسا کرو تم عظمت بھائی کو بس اڈے پر چھوڑ کر آؤ، میں اتنی دیر میں اپنا کام سمیٹ لیتا ہوں‘‘۔
ان کی اس طرح آمادگی سے جہاں مجھے خوشی ہوئی، وہیں بس اڈے کا رخ کرنے کے تصور سے کچھ گھبراہٹ بھی محسوس ہوئی۔ مالیر کوٹلہ کے گزشتہ دورے کے بعد بس کے ذریعے واپسی کے سفر میں مجھے اپنی زندگی کے انتہائی تلخ اور خطرناک ترین تجربے سے دو چار ہونا پڑا تھا کہ مجھے ہر بس اڈے سے وحشت محسوس ہونے لگی تھی۔ میری خوش قسمتی کہ میری یہ مشکل حل کر دی گئی۔ ’’یاسر بھائی، ہمارے مہمان کو زحمت نہ دیں۔ مجھے لدھیانے میں اپنے ایک دو جاننے والوں سے ملاقات کرنی ہے۔ کچھ خریداری بھی کرلوں گا۔ شام تک اطمینان سے مالیر کوٹلہ واپس جاؤں گا‘‘۔
یاسر نے کہا۔ ’’تو پھر جیسے آپ کی مرضی۔ چاہیں تو چند منٹ مزید ٹھہر کر ہمارے نوجوان دوست سے گپ شپ کرلیں۔ پھر ایک ساتھ روانہ ہو جاتے ہیں‘‘۔
عظمت علی خان نے ان کی بات مان لی۔ وہ مجھ سے دلّی اور بٹھنڈا میں میری اور ظہیر کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات پوچھتے رہے۔ کچھ دیر میں یاسر تیار ہوکر آگئے۔ انہوں نے ایک ادھیڑ شخص کو اپنی جگہ ڈھلواں ڈیسک نما گلّے پرکھاتا دے کر بٹھا دیا تھا۔ شاید انہوں نے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے میں نے دیکھ لیا کہ انہوں نے واسکٹ کے نیچے بغلی ہولسٹر میں پستول لگا رکھا ہے۔ ہم تینوں دکان سے باہر نکلے۔ ہم نے عظمت اللہ خان کو گرم جوشی سے رخصت کیا اور میں نے جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
مصروف کاروباری دن ہونے کی وجہ سے سڑک پر کافی ٹریفک تھا۔ تاہم سڑک چوڑی اور عمدہ حالت میں ہونے کی وجہ سے مجھے مناسب رفتار برقرار رکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی تھی۔ یاسر بھٹ نے بتایا کہ ہم اس وقت گرینڈ ٹرنک یعنی جی ٹی روڈ پر سفر کر رہے ہیں۔ یہ تاریخی سڑک یہاں سے سیدھی پنجاب کے مشہور تاریخی شہر اور کاروباری مرکز انبالہ جاتی ہے۔ لہٰذا اس سڑک پر دن رات مسافر اور بار بردارگاڑیوں کی ریل پیل رہتی ہے۔
یاسر بھٹ نے مزید بتایا۔ ’’منڈی گوبند گڑھ میں بھی میرا کاروبار ہے، جسے میرا ایک بھتیجا سنبھالتا ہے۔ ہم اس منڈی میں مکئی کے سب سے بڑھتے آڑھتیوں میں شامل ہیں۔ یہ قصبہ انبالہ اور لدھیانہ کے لگ بھگ درمیان میں ہونے کی وجہ سے زرعی اجناس کی خرید و فروخت کے کاروباری مرکز کی حیثیت سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک اور مشہور قصبہ سرہند تو منڈی گوبند گڑھ سے صرف آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے‘‘۔
میں ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ لیکن میری توجہ سڑک پر اور آس پاس سے گزرنے والے علاقوں پر بھی مرکوز تھی۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد ہم نے دوراہا کے مقام پر ایک بڑی نہر کا پل عبور کیا۔ مزید چالیس منٹ کے تیز رفتار سفر کے بعد ہم کھنّہ نامی خاصے بڑے قصبے سے گزرے۔ یاسر بھٹ نے بتایا کہ منڈی گوبند گڑھ اب صرف سات آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ وہ فاصلہ بھی میں نے بیس پچیس منٹ میں بخیر و خوبی طے کرلیا۔
منڈی گوبند گڑھ میرے اندازے کے برعکس محض منڈی نہیں، بلکہ اچھا خاصا قصبہ ثابت ہوا۔ تاہم میں یاسر بھٹ کی رہنمائی میں قصبے کی چھوٹی بڑی سڑکوں پر جیپ گھماتا ہوا سیدھا اناج منڈی والے حصے میں پہنچ گیا۔
کچھ ہی دیر میں میری جیپ لکڑی کے ایک پھاٹک کے سامنے کھڑی تھی، جس کے پہلو میں ایک چھوٹا دروازہ بھی موجود تھا۔ یاسر نے جیپ سے اتر کر چھوٹا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر قدرے توقف کے بعد دوبارہ دستک دی۔ شاید بند دروازے سے باہر جھانکنے کا کوئی نظام موجود تھا، کیونکہ چھوٹے دروازے کے بجائے میں نے پھاٹک کھلتے دیکھا۔ دروازہ کھولنے والا پندرہ سولہ سال کا ایک لڑکا تھا۔ یاسر کے اشارے پر میں اس کے پیچھے پیچھے جیپ پھاٹک سے اندر لے گیا۔
ایک وسیع احاطہ میری نظروں کے سامنے تھا۔ اس دوران یاسر سامنے دکھائی دینے والے دروازے سے ایک بڑی سی دو منزلہ عمارت کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ میں نے مزید ہدایت کے انتظار میں جیپ سے اترنے کی کوشش نہیں کی۔ میرا دل ہیجانی کیفیت میں تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ اس دوران احاطے کا پھاٹک ایک بار پھر بند ہو چکا تھا۔ لگ بھگ ایک منٹ بعد یاسر اسی دروازے سے باہر نکلا۔ اس کے عقب میں ظہیر شیخ کا طویل قامت سراپا دیکھ کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔
اس سے پہلے کہ میں جیپ سے اترنے کے بعد ان دونوں کی طرف بڑھتا، ظہیر شیخ اپنی مخصوص پھرتی سے قدم بڑھاتے ہوئے مجھ تک پہنچ گیا اور والہانہ انداز میں مجھ سے لپٹ گیا۔ اس کے منہ سے وارفتگی بھرے لہجے میں بس ’’جمال بھائی… میرے جمال بھائی!‘‘ کے کلمات نکل رہے تھے۔ مجھے لگا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔ میں نے گرم جوشی سے اس کے ریشمیں بال سہلائے اور پیٹھ تھپتھپائی۔ وہ بمشکل مجھ سے الگ ہوا اور بغور میرے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ ’’یقین نہیں آرہا… میں تو مایوس ہو چلا تھا کہ اب زندگی میں کبھی ہماری ملاقات نہیں ہوگی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں جن بکھیڑوں میں پھنسا ہوا تھا، ان میں تم سے دوبارہ ملاقات کی امید ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی تھی۔ اللہ کا شکر ہے، اس نے ملاقات کی ایک صورت نکال دی‘‘۔
اس موقع پر یاسر بھٹ نے مداخلت کی۔ ’’ساری باتیں یہیں کرلو گے بھائیو؟ اندر چلو، پھر جی بھرکے حال احوال کا تبادلہ کرلینا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭