حضرت مولانا عبد الشکور دین پوریؒ نے ایک دفعہ اپنے خطاب میں حاجی مانکؒ کا ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا۔ ذیل میں اس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔
کرونڈی، ضلع نواب شاہ تحصیل پڈعیدن سے پندرہ میل دور ایک بستی کا نام ہے۔ وہاں مرزائیوں نے چیلنج کیا کہ ہم مسلمانوں سے مناظرہ کریں گے۔ مولانا لال حسین اخترؒ وہاں پہنچے۔ سندھ کے تمام بڑے علماء وہاں پہنچے۔ ہزاروں کا مجمع ہوگیا۔ مولانا لال حسین اخترؒ نے اپنی پہلی ٹرم میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ میں آج ثابت کروں گا کہ مرزا جھوٹا تھا، کذاب تھا، اس کا دعویٰ بھی جھوٹا تھا، الہام بھی جھوٹے تھے، وحی بھی جھوٹی تھی، پیش گوئیاں بھی جھوٹی تھیں، وہ بھی جھوٹا تھا، اس کی تمام کتابیں جھوٹی تھیں۔
جو مرزائی مقابلے میں تھا، اس کا نام عبد الحق تھا۔ اس بدبخت کو پتہ نہیں کیا خیال آیا۔ وہاں پر چونکہ اس کی زمین تھی، بہت سارے اس کے مزارع تھے۔ مرزائیوں کی ایک بستی تھی، وہ بندوقوں کے ساتھ آیا تھا، اس نے کھڑے ہوکر کہا میں بھی ثابت کروں گا کہ تمہارا نبی بھی ایسا تھا۔
اس پر شور پڑ گیا۔ اس نے جو الفاظ کہے، مسلمان جذبات میں کھڑے ہوگئے۔ دوسری طرف بندوقیں تھیں، کچھ حالات ایسے تھے، پولیس بھی تھی، بات ٹل گئی، لڑائی نہ ہوئی۔ مسلمان بڑے پریشان ہوئے۔ مرزائی چلے گئے۔ مناظرہ یہاں پر ختم ہوا کہ یہ جملہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ وہ معافی مانگے، یہ اس نے ہمارے سینے پر مونگ دلے ہیں۔ ہمیں اس نے چھری سے ذبح کر دیا ہے۔ مسلمان بے غیرت نہیں ہیں، یہ جملے اتنے سنگین ہیں کہ ہمیں موت آجاتی۔ یہ جملے ہمیں برداشت نہ کرنے پڑتے۔ مسلمان روتے ہوئے گئے۔ مانک کہتا ہے کہ میں اپنے گھر گیا۔ (یہ ہماری) قوم کا شہر تھا۔ بلوچوں کی پانچ سو لڑیاں ہیں۔ میں بھی بلوچ ہوں۔ بلوچوں میں جو سردار ہیں، میرے لڑی ان میں ہے۔ جھنگ سے حضرت دین پوریؒ حج پر گئے۔ واپس آکر دین پور میں ڈیرہ لگایا۔ اصل میں ہم بھی جھنگ کے ہیں۔ ہم آپ کے رشتہ دار ہیں۔ حضرت دین پوریؒ یہاں کے تھے۔ یہاں بلوچ تھے، یہاں سے جاکر دین پور کو آباد کیا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post