جب حضرت یوسفؑ کو غلام سمجھ کر مصر کے بازار میں فروخت کیا جارہا تھا تو ان کے خریداروں میں ایسے ایسے امیرو کبیر لوگ بھی شامل تھے، جن کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں پر لدی ہوئی تھیں۔ ان خریداروں میں ایک کمزور اور غریب بڑھیا بھی شامل تھی، جس کے پاس صرف سوت کی ایک معمولی اٹی تھی، جس کی قیمت ایک آدھ درہم سے زائد نہ تھی۔ کسی نے بڑھیا سے پوچھا: بی بی! تم اس معمولی سی چیز سے حضرت یوسفؑ کو آخر کیسے خریدو گی؟
غریب بڑھیا نے بڑا ایمان افروز جواب دیا: بیٹا! درست ہے کہ میں بڑے بڑے امیر لوگوں کی موجودگی میں شاید حضرت یوسفؑ کو نہ خرید سکوں، لیکن میں صرف حضرت یوسفؑ کے خریداروں کی فہرست میں اپنا نام درج کروانے آئی ہوں، تاکہ بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو سکوں۔
ہم اعتراف کرتے ہیں کہ حضور خاتم النبیینؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ اور منکرین ختم نبوت کی سرکوبی کے معاملے میں ہم مجاہد اول، تحفظ ختم نبوت، سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، جنگ یمامہ کے شہداء اور غازیوں کی جوتیوں کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ہم تحریک ختم نبوت 1953ء کے شہداء اور غازیوں کی قربانیوں کے بھی پاسنگ نہیں۔ ہم تو صرف بارگاہ خداوندی میں (اس بڑھیا کی طرح) تحفظ ختم نبوت کا کام کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں، تاکہ قیامت کے دن منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد کرنے والوں میں ہمارا شمار ہو جائے اور ہم شفاعت محمدیؐ کے حق دار بن جائیں۔ (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post