ایف بی آر کے نام پر لوٹ مار کرنے والا گروہ سرگرم

0

عمران خان
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے نام پر کراچی میں لٹیروں کا گروہ سرگرم ہے۔ جعل ساز ایف بی آر کے افسر بن کر ٹیکس چوری اور فراڈ کے کیخلاف تحقیقات کی دھمکی دیکر تاجروں سے بھاری رقوم اینٹھی جاتی ہے۔ ایف بی آر کارپوریٹ سیکشن کے افسران نے تاجروں سے رابطہ کرنے والے جعلی ایف بی آر افسر کو گرفتار کرادیا۔ جبکہ ان جعل سازوں کو ایف بی آر کے ریکارڈ سے تاجروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والی محکمہ کی کالی بھیڑوں کے خلاف بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہے ۔
ایف بی آر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جب سے وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو ٹیکس چوروں اور خفیہ اثاثے بنانے والوں کے خلاف کارروائی احکامات جاری ہوئے ہیں اور ایف بی آر کے مختلف شعبوں نے اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے کارروائیاں شروع کی ہیں تو فراڈیے اور جعل ساز بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے بقول یہ لوگ ایک منظم نیٹ ورک کے طور پر ایف بی آر کے اندر اور باہر کام کررہے ہیں۔ انہیں ایف بی آر کے بعض ایسے افسران اور اہلکاروں کی سرپرستی اور معاونت بھی حاصل ہے جو کہ براہ راست مارکیٹ میں جاکر تاجروں سے رشوت کے معاملات طے کرنے سے گھبراتے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حال ہی میں انہیں شہر کے معروف تاجر رہنما کا فون آیا، جنہوں نے بتایا کہ اس وقت وہ تاجر ایسوسی ایشن کے رہنمائوں کے ہمراہ مارکیٹ میں موجود ہیں اور یہاں ایف بی آر کی جانب سے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب آئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ سرکاری ٹیم بھی ہے۔ انہوں نے تاجروں کی ٹیکس چوری کی نشاندہی کرنے کے بعد انہیں پیشکش کی ہے کہ اگر وہ مطلوبہ رقم دے دیتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی میں ہاتھ ہلکا کردیا جائے گا۔ بصورت دیگر انہیں سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایف بی آر افسر کے مطابق تاجر رہنما نے ڈپٹی کمشنر کا جو نام بتایا تھا، اتفاق سے وہ اس وقت ان کے آفس میں موجود تھے۔ انہوں نے مذکورہ افسر کو ساتھ لیا اور تاجروں کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے پہلے سے موجود جعلی افسر سے اپنا تعارف کرایا اور اپنے شعبے کے بارے میں بتایا۔ اس موقع پر جعلی ایف بی آر افسر کا اعتماد دیکھنے والا تھا۔ اس نے فوری طور پر اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تو آپ کو کبھی ایف بی آر کے کسی آفس میں نہیں دیکھا، جس پر وہاں صورتحال دلچسپ ہوگئی اور تاجر بھی اصل اور جعلی ایف بی آر افسران کے معاملے پر الجھن کا شکار ہوگئے تھے۔
ایف بی آر افسر کے مطابق بعد ازاں انہوں نے تاجروں سے اصل ڈپٹی کمشنر کا تعارف کرایا اور اس جعلساز افسر کو پکڑنے کی ہدایت دی۔ تاہم جعلی افسر اور اس کے ساتھ آنے والے افراد ہڑبونگ مچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ایف بی آر افسر کا مزید کہنا تھا کہ جب تاجروں نے انہیں ان تفصیلات سے آگاہ کیا جو کہ اس جعلی ایف بی آر افسر نے تاجروں کو ڈرانے کیلئے بتائی تھیں تو وہ تمام معلومات ایف بی آر کے اصل ریکارڈ کے مطابق درست تھیں، کیونکہ اس وقت ان میں سے بعض تاجروں کے خلاف واقعتاً ٹیکس چوری کے حوالے سے رپورٹس موجود تھیں۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل جعلی ایف بی آر افسر غلام حیدر شیخ کو ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار کرایا گیا تھا، جو کہ نیب اور ایف بی آر سمیت دیگر سرکاری اداروں میں ملازمتیں دلوانے کا جھانسا دے کر اور ٹیکس چوری و زائد اثاثوں کے حوالے سے کارروائیوں کی دھمکیاں دے کر شہریوں سے لاکھوں روپے بٹور چکا تھا۔ ملزم نے ایف آئی اے کی تحویل میں کئی انکشافات کئے کہ وہ گزشتہ 5 برسوں سے اس دھندے میں ملوث تھا اور اس کو ایف بی آر کے مختلف شعبوں میں موجود کالی بھیڑوں کی معاونت بھی حاصل تھی، تاہم کئی بار پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے باجود اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے ملزم کے حوالے سے بنائی جانے والی رپورٹ میں ان تھانوں اور پولیس افسران کے نام متعلقہ حکام کے ذریعے آئی جی سندھ کو ارسال کئے گئے جنہوں نے ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد رشوت لے کر چھوڑ دیا تھا۔ دوسری جانب ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنے عرصے تک اتنی بڑی جعل سازی تنہا ملزم کے بس کی بات نہیں تھی، اس کو ایف بی آر کے ایک افسر اور دو مزید اہلکاروں کی مدد بھی حاصل رہی، جنہوں نے ملزم کو اہم شخصیات اور افسران کے لیٹر ہیڈ دیئے اور دیگر معاملات میں مدد فراہم کی، جس کے عوض ملزم انہیں ہر واردات میں اچھی خاصی رقم حصے کے طور پر دیتا رہا تھا۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس میں تحقیقات کا دائرہ ایف بی آر کے دیگر افسران تک وسیع کردیا گیا ہے جن کے لیٹر ہیڈ شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورنے کیلئے استعمال کئے گئے۔ بعض دستاویزات ایسی ہیں جو کہ اصل ہیں تاہم ان میں درج تحریروں میں ردوبدل کیا گیا ہے اس لئے اس بات کی مکمل تفتیش کرنا بھی ضروری ہے کہ ایسی دستاویزات تک ملزم کی رسائی کیسے ہوئی تاکہ مستقبل میں ایسی وارداتوں کو تدارک کیا جاسکے۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم اردو بازار کی جس دکان سے تحریر کا کام کرواتا تھا وہاں پر بھی تحقیقات شروع کی گئی ہیں تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس نیٹ ورک کے ذریعے اور کتنے سرکاری اداروں کیلئے کام کیا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایف بی آر کے ایک سینئر افسر کہنا تھا کہ ہر چند روز بعد انہیں اطلاعات ملتی ہیں کہ تاجروں سے ڈیلنگ کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ تاجروں کو اصل صورتحال بتا کر انہیں جعلسازوں کے ہتھے چڑھنے سے روک لیتے ہیں۔ افسر کا کہنا تھا کہ شہریوں کی اس طرح کی اہم اور حساس معلومات اہم ادارے سے لیک ہونا اور اس کا جعلسازی میں استعمال ہونا سنگین معاملہ ہے، جبکہ ادارے کے لیٹرز اگر اردوبار میں موجود کمپوزنگ کی دکانوں میں کام کرنے والے افراد تیار کر رہے ہیں تو یہ سرکاری اداروں کے حکام کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جعلسازوں کے نیٹ ورک کو ایسی معلومات فراہم کرنے والی کالی بھیڑوں کا سراغ لگانے کیلئے تحقیقات کی جا رہی ہیں جس کیلئے ریکارڈ کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کے موبائل فونز کی جانچ پڑتال کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ایف بی آر حکا م کا کہنا تھا کہ شہریوں کے پاس کوئی بھی شخص خود کو ایف بی آر کا افسر یا اہلکار ظاہر کرکے آئے تو انہیں معاملات طے کرنے سے پہلے ایف بی آر حکام یا دفاتر میں رابطہ کرکے تصدیق کرلینی چاہئے کیونکہ ایف بی آر کے افسران کی ٹریننگ اور تربیت ہی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ وہ براہ راست مارکیٹوں اور فیکٹریوں میں جاکر معاملات طے نہیں کرتے، بلکہ شہریوں کو بلانا مقصود ہو تو نوٹس ارسال کرکے متعلقہ دفاتر میں طلب کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More