مجلس عمل کے احتجاجی جلسے میں ہزاروں عاشقان رسول کی شرکت

0

نجم الحسن عارف
ملعونہ آسیہ کی بریت کے فیصلے کے خلاف لاہور میں متحدہ مجلس عمل کے زیر اہتمام احتجاجی جلسے میں ہزاروں عاشقان رسولؐ اور دینی مدارس کے علما اور طلبا نے کی شرکت کی۔ مال روڈ کے علاوہ دیگر کئی سڑکوں کو بھی انتظامیہ نے کئی گھنٹے قبل رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا تھا، تاکہ ایک جانب پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی کی آمد و رفت میں خلل نہ آئے تو دوسری طرف بدامنی کا کوئی واقعہ پیش نہ آسکے۔ نماز ظہر سے پہلے ہی مال روڈ پر مختلف علاقوں اور آبادیوں سے شرکا کے قافلے اور ٹولیاں آنا شروع ہوگئیں تھیں۔ تین بجے تک مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ کے سامنے سے لے کر مسجد شہید تک لوگوں کی بڑی تعداد بھرپور جوش و خروش سے جمع ہوچکی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پرچم اور شرکا، دیگر تمام جماعتوں کے پرچموں اور شرکا سے زیادہ رہے۔ متحدہ مجلس عمل سے باہر کی دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی جلسے سے خطاب کیا اور پر جوش شرکا جلسے کے اختتام تک تحفظ ناموس رسالتؐ اور ختم نبوتؐ کے حق میں نعروں سے ماحول کو گرماتے رہے۔ پولیس نے سیکورٹی کے بھی غیر معمولی انتظامات کئے تھے۔ جلسہ گاہ میں جانے والے شرکا کو واک تھرو گیٹس سے گزر کر مال روڈ پر پھیلے پنڈال میں جانے کی اجازت تھی۔
واضح رہے کہ متحدہ مجلس عمل نے آسیہ مسیح کے حق میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پورے ملک کے اہم شہروں میں ملین مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لاہور میں 15 نومبر سے ایک روز قبل حکومت اور انتظامی رابطوں کے بعد متحدہ مجلس عمل نے اپنے ملین مارچ کا پروگرام منسوخ کرنے کا فوری اعلان کرتے ہوئے جمعرات کے روز صرف احتجاجی جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کی دو نشستوں کیلئے انتخاب میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور کسی قسم کی بدمزگی یا بدامنی کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ ملین مارچ میں بڑی تعداد میں آنے والے لاہور اور مضافات کے شہروں سے آنے والے شرکا کو کنٹرول کرنا خود ملین مارچ کے منتظمین کیلئے بھی مشکل نہ ہوجائے۔ اس دو طرفہ اتفاق کے بعد حکومت اور انتظامیہ نے مجلس عمل کو پہلے سے اعلان کردہ دفعہ 144 کے باوجود اسمبلی اور چیئرنگ کراس سے دور رہتے ہوئے مال روڈ پر احتجاجی جلسے کی اجازت دی۔
گزشتہ روز (جمعرات کو) متحدہ مجلس عمل کے سربراہ کے زیر صدارت ہونے والے احتجاجی جلسے میں پی ٹی آئی حکومت کے اسرائیل کے حق میں سامنے آنے والے غیر رسمی بیانیے پر بھی خوب تنقید کی گئی، جبکہ تحفظ ناموس رسالتؐ اور عقیدہ ختم نبوتؐ کے تحفظ کے لئے ہر مکتبہ فکر کی قیادت نے مکمل یکجہتی کے ساتھ پر جوش اظہار کیا۔ جلسہ کے شرکا نے اس موقع پر تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے رنگ برنگے بینر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے، جو نعروں کے ساتھ فضا میں لہرانے لگتے۔ جلسہ گاہ کے تحفظ کے لئے پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے رضاکاروں نے بھی خدمات انجام دیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بیرونی دورے پر ہونے کے باعث احتجاجی جلسے میں شریک نہ ہوسکے۔ ان کی جگہ قائم مقام امیر حافظ محمد ادریس نے شرکا سے خطاب کیا۔ جماعۃ الدعوہ کے رہنما امیر حمزہ نے بھی شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمان کی تقریر شروع ہونے سے پہلے شرکا پرجوش نعرہ بازی کرتے رہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا امجد خان کے نعروں نے بھی پورے جلسے کے دوران سماں باندھے رکھا۔ تمام جماعتوں نے بالاتفاق آسیہ مسیح کی بریت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کر رد کردیا۔ اس حوالے سے حکومت اور بڑی اپوزیشن جماعتوں کے ’’اتحاد و اتفاق‘‘ پر بھی تنقید کی گئی۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’حکمران اور عالمی استعمار لاکھ کوشش کرلیں، وہ مسلمانوں کے دلوں سے نبیؐ کی محبت کو نہیں نکال سکتے۔ یہ امت گناہ گار سہی، مگر آقاؐ کی ناموس پر جان قربان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کرے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قوم کو آسیہ کیس کے فیصلے کے حوالے سے قانونی اور شرعی بحث میں الجھایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی جواز ہو، لیکن ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ فیصلہ مغربی دباؤ پر کیا گیا ہے۔ لیکن عام مسلمان اس طرح کا کوئی دباؤ قبول کرنے والے نہیں۔ اس فیصلے پر یورپ اور امریکہ میں خوشیاں منائی گئیں۔ یورپی یونین نے رواں سال جنوری میں جی ایس پی گروپ میں شمولیت کو آسیہ کی رہائی سے مشروط کیا۔ اب چند ٹکوں کی خاطر پاکستان میں ایسی حکومت لائی گئی جو یہ فیصلہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں قوم کو دس پندرہ برس سے انتباہ کر رہا ہوں کہ یورپ کے پروردہ سیاستدانوں کو مغربی ایجنڈا مسلط کرنے کے لئے پاکستان میں حکمرانی دینے کی تیاری ہو رہی ہے۔ لیکن میری بات کو توجہ نہ دی گئی۔ ہماری نئی نسل کو گمراہ کر کے، سبز باغ دکھا کر، تہذیب کا باغی بناکر اور مادر پدر آزاد معاشرے کی ترغیبات دے کر گمراہ کیا گیا۔ عوام کو نہیں بھولنا چاہئے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی قادیانی نیٹ ورک ملک میں متحرک ہوگیا۔ حلف کے ایک ہفتے بعد برطانیہ میں قادیانیوں کا بڑا اجتماع ہوا۔ برطانوی وزرا نے بھی اس اجتماع سے خطاب کیا اور ایک وزیر نے عمران خان کو اس کے وعدے یاد دلائے، جو عمران خان قادیانی جماعت سے کئے تھے۔ برطانوی وزیر نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ وعدے پورے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اسی حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی اب پارلیمنٹ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ نے خبردار کیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی بھی فیصلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو تحلیل کر دے گا۔
حافظ محمد ادریس (قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان) نے اپنے خطاب میں کہا کہ فیصلے صرف قانون کی بنیاد پر ہوسکتے ہیں۔ کسی عذر یا مجبوری کی بنیاد پر نہیں۔ ہم ایسے فیصلوں کو نہیں مان سکتے۔ اسلامی قوانین سے روگردانی بھی قبول نہیں۔ نبیؐ کے دور میں نبیؐ کے جانی دشمنوں کو معاف کردیا، مگر ناموس پر حملہ کرنے والوں اور توہین کرنے والوں کو معافی نہیں دی گئی۔
پروفیسر ساجد میر (مرکزی امیر جمعیت اہلحدیث) نے کہا کہ ہر مسئلے پر علمی اختلاف ہے اور ہو سکتا ہے، مگر ناموس رسالت اور ختم نبوت پر کسی مسلک کے لوگوں میں اور علما میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ناموس رسالت اور ختم نبوت کا جھنڈا ہمیشہ اونچا رہے گا۔ اس کے لیے ہر قربانی دیں گے۔
اویس نورانی (سربراہ جمعیت علمائے پاکستان) کا کہنا تھا کہ ایک بھگوڑا آمر، اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کر کے آج جس مکافات عمل سے دوچار ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومتی حلقوں کو اس آمر کا انجام دیکھنا چاہئے۔ منبر و محراب کی طرف ہاتھ اٹھے تو ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اویس نورانی نے 25 نومبر کو سکھر میں ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں صدارتی نظام لانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ہم باور کرانا چاہتے ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہی چلے گا۔
مولانا عبدالغفور حیدری (قائم مقام سیکریٹری جنرل مجلس عمل) نے کہا کہ جن سیاسی جماعتوں نے بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے عدالتی قتل قرار دیا، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے فیصلے کو انصاف کا قتل کہا، نواز شریف کی نااہلی کو بھی انصاف کا قتل کہا، مگر یہ سب جماعتیں سپریم کورٹ کے انتہائی متنازعہ فیصلے کی حمایت کر رہی ہیں۔ بائیس کروڑ عوام اس فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے چار مقاصد تھے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا، قادیانیوں کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنا، آئی ایم ایف کے چنگل کو ملک پر مسلط رکھنا اور سی پیک منصوبے کو تباہ کرنا۔ ایسے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے قوم کو حرمت رسولؐ کے لیے قربانیاں دینے کی خاطر تیار رہنا ہو گا۔
اکرم درانی (سابق وزیراعلیٰ خیبرپختون) نے کہا کہ ’’حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ بزرگ علما کو قتل کیا جارہا ہے۔ جبکہ ایک ایس پی اغوا ہونے کے بعد بیرون ملک قتل ہو جاتا ہے۔ عدالت کے غیر مقبول فیصلے پر بیس کروڑ عوام احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن حکومت عدالتی فیصلے کا ساتھ دیتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر حکمران جماعت کی خاتون رکن نے جس طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ’’دلائل‘‘ دیئے، وہ شرمناک ہیں۔ موجودہ حکمرانوں سے دین اور جمہوریت دونوں خطرے میں ہے۔
دوسری جانب توہین رسالت کیس کی مجرمہ ملعونہ آسیہ مسیح کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست کیلئے سماعت کی تاریخ اب تک مقرر نہیں کی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ چیف جسٹس آف پاکستان کا مکمل صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت اس کیس کی سماعت کے لئے تاریخ مقرر کر دیں یا ڈیڑھ دو سال کیلئے یا اس سے زائد عرصہ التوا میں پڑی رہے۔ اور یہ کہ وہی تین رکنی بینچ جس نے ملزمہ کو بری قرار دیا تھا، اس نظرثانی اپیل کی سماعت کرے گا۔ کیونکہ جج صاحبان نے پوری فائل کا اچھی طرح جائزہ لینے اور تمام قانونی نکات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ دیا ہوتا ہے، اس لئے اس کا امکان خاصا کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی کریں۔ لیکن بہرحال وہ کوئی بھی فیصلہ دے سکتے ہیں۔
ممتاز قانون دان اور سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے اس کیس کی آئندہ سماعت کے بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’نظرثانی اپیل کی سماعت کب ہوگی، یہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کا صوابدیدی اختیار ہے۔ عام طور پر ایسی درخواستین ڈیڑھ دو سال یا اس سے زائد عرصہ زیر التوا رہتی ہیں۔ اگر مدعی نے اس کی فوری سماعت کی الگ سے کوئی درخواست دی ہے تو اس پر غور کرکے اسے منظور کرنا یا مسترد کرنا بھی چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس اگر چاہیں تو اس کی فوری سماعت بھی کرسکتے ہیں اور ایسا بھی ممکن ہو کہ اس کا نمبر آنے پر ڈیڑھ دو سال بعد اس کی سماعت ہو۔ لیکن چونکہ کیس مکمل ہوچکا ہے، اس کا فیصلہ پندرہ بیس منٹ کی ایک سماعت میں بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ وہی فاضل بینچ اس کیس کی نظرثانی اپیل کی بھی سماعت اور فیصلہ کرے گا، جس تین رکنی بینچ نے ملزمہ کو بری کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ اس دوران اگر پٹیشنر کا وکیل کوئی نیا نکتہ اٹھاتا ہے یا بینچ کی توجہ کسی جانب دلاتا ہے تو اس پر غور کر کے عدالت فیصلہ دے گی‘‘۔ ایک سوال پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون کی نظر میں ملزمہ آسیہ مسیح اس وقت آزاد شہری ہے، اس لئے اس کے بیرون ملک جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بیرون ملک جانے کے نتیجے میں ملک کے اندر احتجاج ہوتا ہے یا حکومت اسے باہر جانے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس وقت قانون کے مطابق وہ آزاد ہے اور کسی بھی ملک کا سفر کرسکتی ہے۔
ممتاز قانون دان ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے بھی ملزمہ آسیہ ملعونہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے اور اس کے بریت کے خلاف نظرثانی اپیل کی فوری سماعت کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر رکھا ہے۔ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ابھی تک ہماری درخواست پر کیس کی سماعت کیلئے تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ ہم نے مجرمہ ملعونہ آسیہ مسیح کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کیلئے وفاقی وزارت داخلہ سے بھی درخواست کی ہے، لیکن اس پر عمل نہیںکیا گیا۔ ہمارے خیال میں ملعونہ کا نام ای سی ایل میں شامل نہ کرنا بدنیتی پر مبنی عمل ہے، تاکہ اسے فرار ہونے کا موقع مل جائے۔ اگر اسے بیرون ملک جانے دیا گیا تو ملک میں نقص امن عامہ کا خطرہ ہے، جس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ اتنی بڑی مجرمہ کا نام ای سی ایل میں نہ ڈالنا، جبکہ اس کے خلاف فیصلے کا حتمی مرحلہ طے ہونا ابھی باقی ہے، بدنیتی ہے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی درخواست کی سماعت وہی بینچ کرے گا جس نے مجرمہ کو بری قرار دیا ہے۔ دراصل حکومت اور متعلقہ ادارے لوگوں کے جذبات ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب لوگوں کو کیسز میں الجھا کر پورے معاشرے میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے، تاکہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی آشیرباد کے لئے جب مجرمہ کو بیرون ملک بجھوا دیا جائے تو ملک کے اندر احتجاج نہ ہو۔ مذہبی جماعتیں گو کہ مختلف مسالک اور دھڑوں میں تقسیم ہیں، لیکن اس ایشو پر سب ایک ہیں۔ اگر حکومت نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی تو ملک کے اندر خلفشار پیدا ہوگا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More