طاہر داوڑ کی لاش حوالگی میں تاخیر طے شدہ پلان تھا

0

امت رپورٹ
افغان حکام نے مقتول ایس پی طاہر داوڑ کی لاش پاکستانی حکام کے بجائے قبائلی عمائدین کے حوالے کی۔ اس معاملے پر بحث کے سبب میت کی حوالگی میں دو سے ڈھائی گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ ذرائع کے مطابق جلال آباد میں مقیم مختلف قبائلی عمائدین نے ایک جرگے میں فیصلہ کیا تھا کہ طاہر داوڑ کی لاش پاکستانی حکام کے بجائے مقتول کے خاندان یا قبائلی عمائدین کے حوالے کی جائے گی۔ جب وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ طورخم سرحد پر پہنچے تو وہاں پاکستانی سرحدی حکام پہلے سے موجود تھے۔ لیکن افغان حکام نے میت حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور مقتول ایس پی کے خاندان یا قبائلی عمائدین کو بلانے پر اصرار کرتے رہے۔ جس پر ہنگامی طور پر داوڑ قبائل کے عمائدین کی ٹیم کو طورخم بارڈر پر بلایا گیا۔ محسن داوڑ کا بھائی اس ٹیم کے ہمراہ تھا۔ یوں افغان حکام نے طاہر داوڑ کی میت حوالے کی اور بعد ازاں وہاں موجود پاکستانی سرحدی حکام نے میت کو منتقل کرنے کے انتظامات کئے۔ جس کے لیے پہلے سے وہاں ہیلی کاپٹر موجود تھا، جس کے ذریعے میت پشاور پہنچائی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر پر جو کچھ ہوا، طے شدہ پلان تھا۔ جلال آباد کے قبائل نے کابل حکومت کے اشارے پر طاہر داوڑ کی میت پاکستانی حکام کے حوالے نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ افغانستان کے قبائلی عمائدین بھی اس قتل پر سخت ناراض ہیں۔ اور پاکستانی حکام پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ذرائع کے بقول دراصل کابل حکومت کے دل سے اب تک جنرل عبدالرزاق کی ہلاکت کا دکھ ختم نہیں ہو رہا ہے۔ میت چاہے قبائلی عمائدین کے حوالے کی گئی، لیکن جسد خاکی کی منتقلی کے لیے عمائدین کو تابوت فوری طور پر پاکستانی سرحدی اہلکاروں کی تحویل میں دینا پڑا۔
ادھر پی ٹی ایم نے طاہر داوڑ کے قتل کے واقعے کو بنیاد بنا کر اپنی تحریک دوبارہ زندہ کرنے کا پلان بنا لیا ہے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ مخالفین کو یہ موقع حکومت کی نااہلیت نے فراہم کیا۔ ناتجربہ کار حکومتی ذمہ داران اس سارے معاملے کو درست طریقے سے ہینڈل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف طاہر داوڑ کے اغوا و قتل کا واقعہ مشکوک بن گیا۔ بلکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ریاست مخالف عناصر کے ہاتھ ایک اور موقع بھی آگیا ہے۔ پی ٹی ایم کے ورکرز اور ان کے ہمنوا دیگر عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم شروع کی جا چکی ہے، جس میں حکومت کے علاوہ ریاستی اداروں پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق طاہر داوڑ کے اغوا کو چھپانے کی کوشش نے سارے معاملے کو مشکوک کیا۔ بالخصوص وزیر اعظم کے مشیر افتخار درانی کی وائس آف آمریکہ سے بات چیت نے معاملہ گمبھیر بنا دیا۔ طاہر داوڑ کے اغوا کے دو روز بعد امریکی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے افتخار درانی نے حیرت انگیز طور پر اس خبر کو غلط قرار دیا اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ طاہر داوڑ محفوظ اور پشاور میں موجود ہیں۔ افتخار درانی کا کہنا تھا… ’’ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ (طاہر داوڑ) اغوا ہو گئے ہیں۔ ایس پی رورل پشاور طاہر داوڑ مختصر چھٹیوں پر اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ان کا موبائل فون بند تھا، جس کی وجہ سے ان کی فیملی کو یہ تاثر ملا کہ وہ اغوا ہو گئے ہیں۔ حالانکہ وہ محفوظ اور پشاور میں ہیں‘‘۔ اب افتخار درانی کا کہنا ہے کہ اغوا کی خبر غلط ہونے کا بیان انہوں نے پولیس رپورٹس کی بنیاد پر دیا تھا۔ تاہم تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ دوسری جانب منگل کے روز جب طاہر داوڑ کی لاش کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے پریس کانفرنس کے دوران یہ کہہ کر معاملے کو مزید پراسرار بنا دیا کہ طاہر داوڑ کے قتل کا معاملہ حساس ہے، لہٰذا وہ اس پر بات نہیں کریں گے۔
طاہر داوڑ کی تشدد زدہ لاش کے ساتھ ان کا سرکاری کارڈ اور ہاتھ سے لکھی ایک پرچی بھی برآمد ہوئی تھی۔ جس میں ولایت خراسان کی جانب سے انہیں طاغوتی قوتوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ گلابی پشتو میں تحریر اس پرچی نے معاملے کو مزید مشکوک بنا دیا۔ اس قصے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے طاہر داوڑ کے قتل سے اعلان لاتعلقی کر دیا۔ مختلف صحافیوں کو بھیجے گئے بیان میں کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی کا کہنا تھا کہ طاہر خان داوڑ کی ہلاکت کے حوالے سے ایک خبر اڑائی گئی ہے کہ ایس پی پشاور کو ٹی ٹی پی نے قتل کیا اور اس کے ترجمان محمد خراسانی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم ٹی ٹی پی کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کالعدم تنظیم کے ترجمان کی طرف سے ایسی خبر چلانے والے صحافیوں کو سنگین دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اور کہا گیا کہ وہ جو بھی کارروائی کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر قبول کرتے ہیں۔ پرچیوں کے بجائے یہ تردید یا تصدیق تنظیم کے آفیشل چینل یا ویب سائٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کی رات اس رپورٹ کے لکھے جانے تک کسی تنظیم نے طاہر داوڑ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔
مقتول ایس پی طاہر داوڑ کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔ پشاور میں تعینات ایس پی طاہر داوڑ 26 اکتوبر کو چھٹیوں پر اپنے اہل خانہ کے پاس اسلام آباد پہنچے تھے۔ اور اسی شام انہیں اغوا کر لیا گیا۔ طاہر داوڑ واک کا کہہ کر گھر سے نکلے تھے اور پھر واپس نہیں آئے۔ ان کا فون بھی مسلسل بند رہا، سوائے ایک ایس ایم ایس کے جو مقتول کی فیملی کے بقول کسی اور نے طاہر داوڑ کی ایما پر کیا تھا۔ گمشدگی کے ایک روز بعد طاہر داوڑ کے موبائل فون سے اہل خانہ کو کئے جانے والے ایس ایم ایس میں کہا گیا تھا… ’’میں خیریت سے ہوں اور جلد گھر پہنچ جائوں گا‘‘۔ معلوم ہوا ہے کہ چند ماہ پہلے نامعلوم افراد نے طاہر داوڑ کے بھائی اور بھابی کو بھی قتل کر دیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ اپنے بھائی کے 13 بچوں کی کفالت بھی کر رہے تھے۔ محکمہ پولیس کا اعلیٰ ایوارڈ قائد اعظم ایوارڈ حاصل کرنے والے طاہر داوڑ نے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف بنوں میں کئی آپریشن کئے۔ اس کے ردعمل میں ان کے گھر پر دو بار خودکش حملے بھی ہو چکے تھے۔ جس پر طاہر داوڑ کی پوسٹنگ بنوں سے پشاور کی گئی تھی۔
ادھر پی ٹی ایم اور شمالی وزیرستان کے دیگر قبائلی عمائدین نے طاہر داوڑ کے اغوا کے خلاف پشاور اور اسلام آباد میں بیک وقت دھرنے دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دھرنوں کی تیاری کو آخری شکل دی جارہی تھی کہ طاہر داوڑ کے قتل کی خبر آگئی۔ ذرائع کے مطابق اب بالخصوص پی ٹی ایم اس قتل کے واقعے کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں دھرنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں منظور پشتین نے جمعرات کو 14 شہروں اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، چمن، ٹانک، ملتان، صوابی، مردان، چار سدہ، بونیر اور ژوب میں احتجاج کی کال دی تھی۔ ان میں سے کئی شہروں میں احتجاجی جلوس نکالے بھی گئے۔ دوسری جانب پی ٹی ایم نے طاہر داوڑ کے قتل کی انکوائری سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ اور واقعے کی تحقیقات انٹرنیشنل انکوائری کمیشن کے ذریعے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طاہر داوڑ کے قتل پر پی ٹی ایم کے ممکنہ احتجاج کی صورت میں حکومت کو ایک بار پھر اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کا چیلنج درپیش ہو گا، جو پہلے نقیب اللہ قتل کیس پر باہر نکلا تھا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More