حاجی مانک صاحبؒ کہتے ہیں کہ جب میں نے قادیانی کی یہ گستاخی سنی تو سر پکڑ لیا، میں روتا رہا۔ یہ بات ساری بستی میں پھیل گئی کہ عبد الحق نے اتنی گستاخی اور اتنی زبان درازی کی ہے، اتنی بے ادبی کی ہے، اتنی بکواس کی ہے، ہر شخص کی زبان پر یہی بات تھی۔ حاجی مانک کہتے ہیں کہ میں گھر آیا تو میرا گھر بدلا ہوا تھا۔ میری بچیاں رو رہی تھیں، میری بیوی کا رخ ایک طرف تھا، میں نے پانی مانگا، بیوی نے نہیں دیا، میں نے بیوی سے کہا پانی دو۔ اس نے کوئی بات نہیں کی۔
اندر سے کنڈی مار کر کہنے لگی: مانک تیری سفید داڑھی، اسی سال تو حج کرکے آیا ہے۔ گنبد خضرا پر تو روتا تھا، مجھے ساتھ لے گیا تھا۔ تو نے اپنے محبوب کریمؐ کے متعلق یہ جملہ سنا، تجھے غیرت نہیں آئی اور تو زندہ واپس آگیا تو بھی محمدؐ کا امتی ہے؟ میں تیری بیوی نہیں ہوں، مجھے اجازت دے دے، میں میکے جاری ہوں۔ یہ بیٹیاں تیری بیٹیاں نہیں ہیں، میں ایسے شخص کو اپنا خاوند نہیں بناتی، جو اپنے نبیؐ کی توہین سن کر خاموش رہا۔ میری بیٹیاں تجھے ابا نہیں کہیں گی۔ اتنی بڑی تو نے داڑھی رکھی ہے اور مصطفیؐ کے خلاف یہ بکواس سن کر تو زندہ لوٹ آیا۔ مر نہیں گیا۔ حاجی مانکؒ کہتے ہیں: اس جملے نے میرے اندر مصطفیؐ کی محبت کی سپرٹ بھر دی۔ مجھے کرنٹ سالگا۔
حضور اقدسؐ کی حیات طیبہ کا سارا نقشہ میرے سامنے آگیا۔ آقاؐ کی محبت نے جوش مارا۔ میں پھر بے خود ہوگیا، میں نے کلہاڑی اٹھائی اور اس مرزائی عبد الحق کی طرف چل پڑا۔ (مولانا دین پوریؒ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ سنا کر آپ کا ایمان تازہ کر رہا ہوں۔ حاجی مانک کی عمر پچاس برس تھی، چہرہ حسین سرخ، منہ پر نور ٹپکتا ہے، میں کرونڈی کی طرف جب تقریر کے لیے جاتا ہوں، تو حاجی مانک صدارت کرتے ہیں۔ میں ان کا ماتھا چومتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیسیوں دفعہ حضور اقدسؐ کی زیارت ہو چکی ہے)
حاجی مانک کہتے ہیں کہ کلہاڑی ہاتھ میں لے لی اور تو میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ پستول، ریوالور وغیرہ پاس نہیں تھا۔ دل میں فیصلہ کر لیا کہ یا مصطفیٰؐ کا گستاخ، آج بھوکنے والا کتا زندہ رہے گا یا محمدؐ کا عاشق جان دے دے گا، سیدھا گیا، عبدالحق پھر رہا تھا، اس کو خیال بھی نہ آیا کہ یہ بوڑھا مجھے کچھ کہے گا۔ پچاس سال حاجی مانک کی عمر تھی سفید داڑھی تھی۔ کہتے ہیں کہ میں ویسے بوڑھا ہوں، مگر دل جوان تھا۔ خوں میرا جوان تھا، رگوں میں جو خون تھا، وہ جوان تھا۔ میں نے عبد الحق کو قریب جا کر کہا: او گستاخ! او مرزائی کتے! او مرتد! آج تیرا آخری دن ہے تو بچ نہیں جائے گا، تگڑا ہو جا، محمدؐ کا عاشق تیرے پاس پہنچ چکا ہے۔
اس نے میرے ہاتھ کلہاڑی دیکھی تو دوڑنے لگا۔ پاؤں میں ڈھیلا اٹکا تو منہ کے بل گرا۔ ڈھیلا نہیں اٹکا تھا، قدرت نے دھکادیا، میں پاس پہنچ گیا۔ میں نے کلہاڑی کے وار کرنے شروع کردیئے۔ میں نے اس کو جوتے سے سیدھا کیا۔ میں نے اس کے سینے پر کلہاڑیاں ماریں۔ میں زور سے وہاں کہتا رہا کہ اس سینے میں نبی کا کینہ ہے، پھر میں نے دماغ پر کلہاڑی ماری، میں نے کہا تیرا دماغ خراب تھا، پھر میں نے زبان کو پکڑ کر کلہاڑی سے کاٹا۔ میں نے کہا یہ بھونکتی تھی، پھر میں نے انگلی کو لکڑی پر رکھ کر کاٹا، میں نے کہا جب تو نے گستاخی کی تھی، تو انگلی مدینے کی طرف اٹھائی، میں اس انگلی کو کاٹ دوں گا، جو محمدؐ کی گستاخی کرے گی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post