’’پڑوسی؟‘‘

0

’’بابا! میں تھک گئی ہوں۔‘‘ ننھی ابرش اپنی ننھی منی بانہیں سیلانی کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا۔ سیلانی نے ابرش کو گود میں لینے کے لئے ہاتھ بڑھائے تو وہ پیچھے ہوگئی۔
’’بابا ایسے نہیں، میں نے ادھر بیٹھنا ہے۔‘‘ اس کی انگلی کا اشارہ سیلانی کے کاندھوں کی جانب تھا۔ ابرش کی مما نے اسے گھور کر دیکھا ’’بابا کو تنگ مت کرو، بابا تھک گئے ہیں۔‘‘
لیکن ابرش کہاں سننے والی تھی۔ اس نے پاؤں پٹختے ہوئے کہا: ’’بابا مجھے اٹھا لیں ناں۔‘‘
بیٹی کے لاڈ پر سیلانی اپنی ساری تھکن بھول گیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھوں پر بٹھا لیا، ابرش خوش ہوگئی۔ اس نے اپنا توازن برابر رکھنے کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے بابا کے گھنگھریالے بال مٹھی میں پکڑ لئے۔ ابرش کی مما نے اسے ڈانٹا تو سیلانی نے انہیں منع کر دیا۔
’’ارے بھئی! میں نہیں تھکا، آپ منیب کے لئے جلدی سے سوئٹر دیکھو اور پھر نکلو۔‘‘
سیلانی اس وقت اپنی بیٹی اور مسز کے ہمراہ اسلام آباد کے وسیع وعریض جمعہ بازار میں خریداری کر رہا تھا۔ جمعہ بازار میں پھل فروٹ، سبزیاں اور دیگر اشیاء بہت مناسب داموں پر مل جاتی ہیں، اس لئے یہاں آدھا اسلام آباد خریداری کرتا نظر آتا ہے۔ اب ان میں سیلانی بھی ہے۔ دونوں میاں بیوی نے گھر سے نکلتے ہوئے ابرش کو بھی ساتھ لے لیا تھا کہ اس نے گھر میں بھائیوں کے قابو نہیں آنا اور یہا ں آدھے گھنٹے میں ہی ابرش تھک کر سیلانی کے کاندھوں پر سوار ہونے کی فرمائش کرنے لگی۔ اب بھلا سیلانی اپنی لاڈلی کی فرمائش کیسے ٹالتا؟ اس نے ابرش کو کاندھے پر بٹھا لیا اور پھر ابرش اپنے بابا کے کاندھوں پر ایسے سوار ہوئی کہ اترنا ہی بھول گئی۔ لگ بھگ گھنٹہ بھر کی مشقت کے بعد سیلانی گھر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں جیکٹ، سوئٹر، گرم پاجامے اور خوب ساری تھکن بھی تھی۔ حالت یہ تھی کہ جیسے کمر تختہ ہو گئی ہو۔ سیلانی نے بمشکل نماز پڑھی اور جائے نماز پر ہی اوندھا لیٹ کر شیث خان کو بلا لیا۔ شیث خان پورے وزن کے ساتھ اپنے بابا کی کمر پر کھڑاہوا تو سیلانی کو قدرے آرام محسوس ہوا۔ جس کے بعد وہ الماری سے لیپ ٹاپ نکال کر مسہری پر آگیا۔ آج وہ سند یافتہ جھگڑالو وفاقی وزیر اطلاعات کی سینیٹ سے ہفتہ بھر کی جبری رخصت پر لکھنا چاہ رہا تھا۔ سیلانی نے اس حوالے سے کافی کچھ جمع کر رکھا تھا۔ جہلم کا یہ چوہدری کپتان کے سارے کئے کرائے پر پوری دلجمعی سے پانی پھیر رہا ہے۔ صحافیوں کے ساتھ جناب نے سینگ پھنسا رکھے ہیں۔ دوسری طرف وکلاء برادری کے خلاف بھی طبل جنگ بجا دیا ہے۔ ایسے وزراء کی موجودگی میں بھلا کپتان کو کسی اپوزیشن کی ضرورت کیوں کر ہونے لگی!!
سیلانی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا اور اس نے فیس بک کھولی ہی تھی کہ چار پانچ سالہ بچی کی تصویر سامنے آگئی۔ الجھے ہوئے بالوں والی یہ لڑکی فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھی۔ اس نے ایک پورٹریٹ سینے سے لگایا ہوا تھا۔ اس کے لب بھنچے ہوئے اور ابرو کھنچے ہوئے تھے۔ اس کا معصوم چہرہ بتا رہا تھا کہ اس نے بہت مشکل سے اشک ضبط کر رکھے ہیں۔ اس تصویر کے بعد یقینا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی ہوگی۔ اس تصویر نے سیلانی کا دل مسوس کر رکھ دیا اور صرف اسی کا ہی کیا، جس نے بھی یہ تصویر دیکھی ہوگی، اس کی یہی کیفیت ہوگی۔ یہ اسلام آباد سے اغواء ہونے والے ایس پی طاہر داوڑ کی بیٹی کی تصویر تھی۔ طاہر داوڑ کو پاکستان کے محفوظ ترین شہر اسلام آباد سے اغواء کیا گیا اور پھر اس کی لاش افغانستان کے صوبے ننگر ہار سے ملی۔
شہید ایس پی کی بیٹی کی اس تصویر نے سیلانی کو سب کچھ بھلا دیا کہ اس نے کیا جمع کر رکھا ہے اور وہ کیا لکھنا چاہ رہا ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے بس طاہر داوڑ کی معصوم بیٹی کی تصویر تھی، جو اپنے باپ کی تصویر سینے سے لگائے سوالیہ نظروں سے کیمرے کی جانب دیکھ رہی تھی، جیسے پوچھ رہی ہو میرے بابا کب لوٹیں گے…؟ کب ان کی گاڑی کی آواز گیراج میں آئے گی…؟ کب میں بھاگ کر ان کی ٹانگوں سے لپٹوں گی…؟ وہ کب مجھے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر ہوا میں اچھالیں گے اور سینے سے لگا کر شفقت سے میری پیشانی چومیں گے…؟ ساری بیٹیاں ایسی ہی پیاری ہوتی ہیں۔ طاہر داوڑ کو بھی اپنی یہ بیٹی اسی طرح پیاری ہوگی، جیسے سیلانی کو ابرش اور آپ کو فاطمہ، خدیجہ، عفت اور زینب… جیسے سیلانی آس پاس کی پروا کئے بغیر ابرش کو کاندھے پر اٹھائے اٹھائے پھر رہا تھا۔ ویسے ہی شہید ایس پی کی یہ لاڈو بھی اپنے بابا سے لاڈ کرتی ہوگی، مگر اب ایسا کبھی نہ ہوگا۔ اس کا یہ انتظار کبھی ختم نہ ہوگا، اس کے کانو ں میں اس کے باپ کی آواز کبھی نہ آئے گی کہ وہ آواز دبا دی گئی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آبا د کو safe city ’’محفوظ شہر‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ کتنا محفوظ اور یہاں سے ملک بھر میں حکومت کرنے والے کتنے باخبر ہیں؟ اس کا اندازہ ایک طرف شمالی وزیرستان کے نڈر پولیس افسر کے یہاں سے اغواء سے ہوتا ہے تو دوسری جانب شہید کی لاش کی سپردگی کے انداز سے پتہ چل جاتا ہے۔ سیف سٹی کے مکین حکام بالا یہ درست اطلاع تک نہ حاصل کر سکے کہ شہید ایس پی کی لاش کب دی جائے گی؟ وہ پھیروں پر پھیرے ڈالتے رہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پتہ چل گیا کہ کابل اب اپنے پڑوسی کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔
طاہر داوڑ کے اغواء سے حکومت کے چہرے پر غیر سنجیدگی کی چیچک بھی نکل آئی۔ اینٹی ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں اپنی ملازمت کا بڑا حصہ بِتانے اور دہشت گردوں سے نبرد آزما رہنے والا ایک اہم افسر اغواء ہو جاتا ہے۔ خبر پر لگا کر سات سمندر پار تک چلی جاتی ہے اور میڈیا میں آکر انہیں مطعون کرنے کے شوقین مشیر وزیر کو کچھ خبر ہی نہیں ہوتی۔ خبر نہیں تو بات کرنے سے انکار کیا جا سکتاہے۔ متعلقہ وزیر سے رابطے کے لئے کہا جاسکتا ہے، لیکن کسی میڈیا ہاؤس سے آئی ہوئی کال کیسے چھوڑی جائے؟؟؟ اٹھائیس اکتوبر کو وزیر اعظم کے متمول معاون خصوصی افتخار درانی نے بھی یہی کیا۔ انہیں وائس آف امریکہ اردو سروس آن بورڈ لیتا ہے۔ پروگرام کی میزبان طاہر داوڑ کے اغواء کے بارے میں سوال کرتی ہے اور معاون خصوصی صاحب شان بے نیازی سے گویا ہوتے ہیں:
’’دیکھیں جی، ایسا ایک تاثر دیا گیا ہے کہ وہ اغواء ہو گئے ہیں۔ وہ short leave پر اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ایس پی رورل ہیں پشاورکے، ان کا موبائل فون بند تھا۔
little while اس کی وجہ سے یہ تاثر دیا گیا۔ فیملی کو تشویش ہوئی جیسا کہ جو صاحب ابھی لائن پر تھے، ایک تاثر دیا گیا کہ وہ اغواء ہو گئے ہیں۔‘‘ بے خبر لاعلم درانی صاحب یہیں تک رہتے تو شرمندگی کا اتنا سامان نہ ہوتا۔ انہوں نے اگلی ہی سانس میں انہیں پشاور میں محفوظ اور موجود بھی قرار دے دیا۔ وائس آف امریکہ کی میزبان کے لئے یہ بڑی خبر تھی کہ جس شخص کے اغواء سے متعلق وہ پروگرام کر رہی ہے، اس کا مہمان کہہ رہا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک اور مزے میں ہے۔ میزبان نے کہا کہ اتنی بڑی خبر پاکستانی میڈیا کو دینی چاہئے کہ وہ بازیاب ہو چکے ہیں؟
جواب میں نئے پاکستان کی نئی حکومت کے سربراہ کے منتخب معاون خصوصی نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے ہیں ’’دیکھیں ناں جی، آپ کو امریکہ سے داوڑ صاحب مل گئے ہیں اور مجھے خیبر پختونخواہ سے خبر نہیں آئے گی یہ تو آپ نے بڑی مضحکہ خیز بات کہہ دی۔‘‘
واقعی یہ مضحکہ خیز نہیں، افسوس ناک بات تھی۔ افتخار درانی کی گفتگو کا یہ حصہ سوشل میڈیا میں بنا پروں کے اڑتا پھرتا رہا اور نئے پاکستان کی پہلی حکومت کے لئے اس وقت تک شرمندگی کا سامان کرتا رہا، جب تک 13 نومبر کو طاہر داوڑ کی تشدد زدہ لاش نہ مل گئی۔ طاہر داوڑ کی لاش کی تصویر سوشل میڈیا میں دیکھی جانے لگی تو تب حکومت بغلیں جھانکتے ہوئے حرکت میں آئی اور کابل سے لاش کی سپردگی کا مطالبہ کرنے لگی۔ یہاں کابل بھی کھل کر سامنے آگیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو قبائلی پشتونوں میں وقعت، اہمیت اور احترام دینے کے لئے سارے سفارتی آداب بالائے طاق رکھ دیئے اور ریاست نے ریاست سے بات کرنے کے بجائے اس سے ناراض گروہ سے بات چیت کا ڈول ڈال دیا۔ کابل مُصر رہا کہ لاش پی ٹی ایم کے راہنما محسن داوڑ کو دی جائے گی۔ پاکستان پر پھبتیاں طعنے کسنے اور ایک مخصوص مہم چلانے والے محسن داوڑ اس گفتگو میں شریک ہوئے تو لاش حوالے کی گئی۔ یہاں کوئی سفارتی قضیہ تھا نہ سرحدی لکیر کا کوئی تنازعہ۔ سادہ سی بات تھی۔ پاکستان کے ایک شہری کو ایک ریاست کے ایک افسر کو اس کی زمین سے اغواء کیا گیا، جس کے بعد اس کی لاش دوسری ریاست کی حدود سے ملی۔ اصولی طور پر تو افغان حکومت اس بات کی پابند ہے کہ بتائے پڑوسی ریاست کا شہری اس کی حدود میں کیسے پہنچا؟ اور کیسے قتل ہوا؟ کابل حکومت کو طاہر داوڑ کے لہو کا جواب دینا چاہئے تھا، لیکن اس نے سارے سفارتی بین الاقوامی آداب ایک طرف رکھ کر بھونڈے انداز سے شہید کی لاش پاکستان کے حوالے کرکے پیغام دے دیا کہ جہاں تک بھارت نواز کابل حکومت کی سنی جاتی ہے، وہاں پاکستا ن کی بحیثیت پڑوسی کچھ نہ سنی جائے گی۔
طاہر دواڑ کی زخموں سے سجی لاش اس کے پاکستان کے حوالے کر دی گئی۔ اس کی مٹی وہاں پہنچ گئی، جس کی مٹی کی حفاظت کا اس نے 1995ء میں پولیس فورس میں اے ایس آئی کی حیثیت سے شامل ہوتے ہوئے وعدہ کیا تھا۔ پاکستان کا وہ وزیرستان جسے دنیا ’’علاقہ غیر‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اس علاقے کے ایک ’’غیر‘‘ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ طاہر پر دو خود کش حملے ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود وہ غازی کی حیثیت سے دہشت گردوں سے لڑتا رہا اور اسی لڑائی میں وہ اپنی گڑیا جیسی بیٹی کی آنکھوں میں کبھی ختم نہ ہونے والا انتظار سونپ کر افق کے پار شہید دوستوں سے جا ملا… سیلانی اپنی آنکھوں کے گوشوں کی نمی صاف کرتے ہوئے محبت اور عقیدت سے طاہر داوڑ کی وردی میں مسکراتی تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More