اسلام آباد سے اغوا ہونے والے پولیس افسر طاہر داوڑ کی لاش افغان حکام نے ریاستی ذمہ داروں کے بجائے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے کی۔ وزیر داخلہ برائے مملکت شہریار آفریدی سمیت پاکستانی حکام طورخم بارڈر پر لاش وصول کرنے کیلئے کئی گھنٹے انتظار کرتے رہے۔ مگر افغان حکام کا اصرار تھا کہ لاش محسن داوڑ یا قبائلی نمائندوں کے ہی سپرد کی جائے گی۔ دن بھر مذاکرات کے باوجود افغان اہلکاروں کی ڈھٹائی دیکھتے ہوئے پی ٹی ایم کے رہنما کو مذاکراتی عمل میں شریک کیا گیا اور شام پانچ بجے کے قریب پاکستانی حکام مقتول پولیس افسر کا جسد خاکی وصول کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اشرف غنی حکومت کی بدسلوکی پر پاکستان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے بین الاقوامی سفارتی قوانین کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا گیا۔ جبکہ پاک فوج نے پڑوسی ملک کے معاندانہ رویّے کی شدید مذمت کی ہے۔ انیس سو پینسٹھ میں پولیس فورسز کا حصہ بننے والے طاہر خان داوڑ کا تعلق وزیرستان سے تھا۔ ان کا شمار دہشت گردی کے خلاف بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران میں ہوتا تھا۔ اس لئے دہشت گردوں نے ان پر دو خود کش حملے بھی کئے تھے۔ طاہر داوڑ چھبیس اکتوبر کو اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے۔ رواں ماہ کی تیرہ تاریخ کو ان کی لاش افغانستان کے صوبے ننگرہار سے برآمد ہوئی۔ اس لئے اس بہیمانہ قتل میں بھی افغانستان کی خفیہ ایجنسی کا ملوث ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قبائلی پس منظر رکھنے والے پولیس افسر کے اغوا سے لے کر انہیں افغانستان لے جانے اور بے رحمانہ قتل کے پیچھے افغان حکومت کے عزائم سامنے آگئے ہیں۔ لاش حوالگی کے معاملے پر طرز عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا۔ جس کے ذریعے پشتون تحفظ موومنٹ کی دم توڑتی ملک دشمن سرگرمیوں کو بھی زندگی دینے اور محسن داوڑ کو ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ جسے قبائل کی اکثریت مسترد کر چکی ہے۔ اس تمام معاملے میں پشتون تحفظ موومنٹ کو آگے لانے کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ افغان حکام کا رویہ بین الاقوامی اور سفارتی اصولوں کے بھی خلاف رہا۔ جس نے اشرف غنی حکومت کے مکروہ چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔ افغان حکومت نے جس رویّے کا اظہار کیا، اس سے اسی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ دہلی سرکار کے چرنوں کو چھونے والی کابل انتظامیہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی۔ ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو پناہ دینے سے لے کر پاکستان میں ہونے والے خوفناک حملوں تک ہر معاملے میں کابل حکومت اپنی دشمنی نبھا رہی ہے۔ حالانکہ پاکستان نے ہر مشکل گھڑی میں افغانستان کو برادار اسلامی ملک سمجھ کر اس کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ سوویت یونین کی یلغار کے بعد سرحد پار کرنے والے مہاجرین کیلئے پاکستان نے انصار مدینہ کا کردار ادا کیا۔ اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن افغانستان پر چونکہ طالبان کے مختصر دور حکومت کے علاوہ ہمیشہ پاکستان مخالف قوتیں برسر اقتدار رہی ہیں۔ اس لئے اکثر احسان فراموشی کا مظاہرہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سیف سٹی کہلانے والے شہر اسلام آباد سے ایک پولیس افسر کا اغوا ہونا، تمام چیک پوسٹوں کو چکمہ دے کر ان کا افغانستان پہنچایا جانا اور پھر تشدد کر کے انہیں قتل کرنا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ حکام بالا نے اس حوالے سے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ جب تک سوشل میڈیا کی معرفت شہید پولیس افسر کی لاش کی تصویر منظر عام پر نہیں آئی۔ حکومت اس اغوا کا ہی انکار کرتی رہی۔ وزارت داخلہ کو اس پر مذمتی بیان جاری کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ بلکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے میڈیا افتخار درانی نے تو ایک غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ کر طاہر داوڑ کے اہل خانہ کے زخموں پر نمک چھڑکا کہ وہ اغوا ہی نہیں ہوئے۔ وہ تو پشاور میں اپنے گھر میں موجود ہیں۔ اب وزیر اعظم عمران خان کو اس واردات کے نوٹس لینے کا خیال آیا اور تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستانی حکام کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹتے نظر آتے ہیں۔ پھر آج تک تحقیقاتی کمیشنوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ اس لئے یہ مثل مشہور ہو چکی ہے کہ جس معاملے کو طاق نسیان کی نذر کرنا ہو۔ اس پر تحقیقات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پولیس افسر کے اغوا ہوتے ہی معاملے کو سنجیدگی سے لیا جاتا۔ سرحدوں پر کڑی نگرانی کی جاتی۔ شاید ان کی قیمتی جان بھی بچ جاتی۔ تاہم دارالحکومت جیسے محفوظ شہر سے ایک شہری (عام آدمی نہیں، بلکہ سرکاری افسر) کو اغوا کر کے سرحد پار لے جانا ایک ایسا غیر معمولی سوال ہے۔ جس کا جواب حکومت نے قوم کو دینا ہو گا۔ ساتھ ہی اس گھنائونی واردات میں ملوث عناصر کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچانا از حد ضروری ہے۔ تاکہ شہید کے لواحقین کا غم کچھ کم ہو سکے اور وطن کے لئے قربانی دینے والے اہلکاروں کا مورال بھی گرنے سے بچایا جا سکے۔ وزیر اعظم عمران خان اقتدار سنبھالنے سے قبل بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت میں نہ کسی کو اغوا کیا جائے گا نہ غائب۔ ایک نجی ٹی وی کو دیا گیا ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’میں شہریوں کو اغوا کرنے والوں سے ٹکرائوں گا‘‘۔ اب ان کی حکومت کے سو دن بھی پورے ہو رہے ہیں۔ مگر لوگ اغوا بھی ہو رہے ہیں اور قتل و غائب بھی۔ ایسے واقعات سے عوام کا ریاست سے اعتماد کا رشتہ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو حکومت اپنے افسران کی حفاظت نہ کر سکے۔ وہ عوام کی جان مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کو کیسے یقینی بنا سکتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post