سیدنا عکاشہ کی خوش نصیبی

0

جب رسول اقدسؐ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپؐ نے تمام مدینہ والوں کو آخری وصیت کے لئے بلایا اور بہت سی نصیحتیں فرمائیں۔ پھر فرمایا: ’’مجھ پر جس کا جو حق ہو، وہ آج لے لے۔ کسی کا قرض ہو تو وہ بے باق کر لے۔ کسی کو برا کہا ہو، ستایا ہو یا دل آزاری کی ہو تو وہ اپنا بدلہ لے لے تاکہ میں آخرت کے عذاب سے محفوظ رہوں۔‘‘
مہاجرین اور انصار کے دل غم و اند وہ سے پھٹے جا رہے تھے۔ وہ سب صبر کئے کھڑے رہے۔ سب طرف سناٹا تھا۔ آپؐ بار بار ان باتوں کو دہرا کر بدلہ لینے کیلئے اصرار کر رہے تھے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’میرا پیارا وہی ہے، جو اس وقت مجھ سے اپنا حق لے لے۔‘‘
حضرت عکاشہؓ مجمع میں سے کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ ’’مجھے اپنا حق لینا مقصود نہیں تھا۔ مگر آپؐ کا اصرار ہے، اس لئے ایسا کہہ رہا ہوں، ایک مرتبہ جب تبوک کے سفر میں آپ نے اپنی اونٹنی کو تیز کرنے کے لئے کوڑا چلایا تو وہ میرے مونڈھے پر پڑا اور میرے چوٹ لگ گئی۔‘‘
رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’اے عکاشہ! تو نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ مجھے عقبیٰ کی فضیحت سے بچا لیا۔ پھر حضرت سلمان فارسیؓ سے کہا: ’’سلمان! جائو میرا کوڑا فاطمہ کے گھر میں ہے، تم اس کو لے آئو۔‘‘
سیدنا سلمان فارسیؓ روتے ہوئے سیدہؓ کے گھر گئے اور وہ کوڑا جو سفر تبوک میں آپؐ کے پاس تھا، لے کر مسجد نبوی میں لوٹے۔ کوڑے کو دیکھ کر سب صحابہؓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اندر ہی اندر سب کو حضرت عکاشہؓ پر بہت غصہ آرہا تھا۔ سب چاہتے تھے کہ اس کوڑے کے بدلے میں عکاشہؓ انہیں کتنے ہی کوڑے مار لیں۔
رسول اکرمؐ نے قبلے کی جانب رخ کیا اور کہا: ’’عکاشہ! اگر تجھے مجھ سے محبت ہے تو بلا مروت ایسا ہی کوڑا میری پیٹھ پر مار جیسے تیرے لگا تھا تاکہ میں عذاب آخرت سے بچ سکوں۔‘‘
عکاشہؓ نے کہا ’’حضور! جب میری پیٹھ پر کوڑا پڑا تھا تو میں برہنہ پیٹھ تھا۔‘‘
رسول اکرمؐ نے اپنی چادر کندھے سے ہٹا دی۔ مہر نبوت نظر آنے لگی۔
حضرت عکاشہؓ نے مہر نبوت کو دیکھا۔ وجد میں جھومنے لگے اور مہر نبوت کے بوسے لینے لگے اور عرض کیا ’’حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، نہ کبھی آپ نے مجھے کوڑا مارا اور نہ مجھ میں انتقام لینے کی جرأت۔ بس آخری وقت میں مہر نبوت کی زیارت کرکے اپنے اوپر آتش جہنم کو حرام کرنا چاہتا تھا۔‘‘ (سید المرسلین ص 178)
رسول اکرمؐ سے قربت کا حق
حضرت عمر فاروقؓ اپنے دور خلافت میں رسول اقدسؐ کے اصحاب سے بھی محبت کرتے تھے۔ صحابہ یا ان کی اولاد کو اس خیال سے بہت نوازتے تھے کہ وہ رسول اکرمؐ سے نسبت رکھتے تھے۔
ایک دن ان کو بازار میں ایک خاتون ملی۔ اس نے کہا:
’’یا امیر المومنین! میرا شوہر مر گیا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ بھوک ان بچوں کو مار ڈالے گی۔ میں خفافؓ بن ایما الغفاری کی بیٹی ہوں۔ میرا باپ صلح حدیبیہ کے وقت رسول اکرمؐ کے ساتھ تھا۔‘‘
حضرت عمرؓ اس خاتون کی داستان سن کر ٹھہر گئے اور کہا ’’مرحبا بنسب قریب‘‘ یعنی میری قریبی رشتہ دار خوش آمدید۔ پھر اس کو گھر لے گئے۔ ایک تندرست اونٹ پر کپڑا اور کھانے پینے کا سامان لاد کر اس کی مہار اس خاتون کے ہاتھ میں دیدی اور کہا: ’’اس کو لے جائو اور اپنے بچوں کو کھلائو، خدا تم کو فارغ البالی عطا کرے۔‘‘
ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ’’یا امیر المومنین! آپ نے ایک خاتون کو اس قدر سازو سامان دے دیا۔‘‘
فرمایا ’’کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ حدیبیہ میں اس کا باپ رسول اقدسؐ کے ساتھ تھا۔ پھر اس کے باپ اور بھائی نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تھا اور ایک مدت کے بعد اس کو فتح کیا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب المغازی)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More