ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
ویسے تو سیاست اور یو ٹرن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لیکن یوٹرن کا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک تحریک انصاف کے پاس ہے۔ پرانی جماعتیں تو پھر سنبھل گئی ہیں، لیکن تحریک انصاف چوں کہ نئی جماعت ہے اور پھر اس کے کپتان کرکٹ سے آئے ہیں، جہاں وہ سوئنگ کے بانی سمجھے جاتے تھے۔ سو انہوں نے سیاست میں آکر مؤقف کو ہی سوئنگ کرنا شروع کر دیا۔ ان کے دیکھا دیکھی تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی اس ہنر میں نام بنانے لگے۔ اس لئے حریفوں کو یوٹرن تحریک انصاف کے ساتھ نتھی کرنے کا موقع مل گیا۔ پہلے تو پی ٹی آئی والے یوٹرن کے طعنے پر ناراض ہو جاتے تھے، لیکن گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے جس طرح یوٹرن کی تعریف کی ہے، اس پر عملی طور پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل صدر عارف علوی نے بھی جس طرح یوٹرن کو اچھی چیز قرار دیا ہے، اس کے بعد تو سیاسی مارکیٹ میں یہ پارٹی کا پکا ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کر لینا چاہئے۔ اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی ہے تو ابھی پانچ برس باقی ہیں، ان میں اپنے عمل سے پوری کر دی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پر بھی آج کل یوٹرن کے الزامات لگ رہے ہیں، انہوں نے جس طرح العزیزیہ کیس میں پہلے قومی اسمبلی میں کئے گئے اپنے خطاب سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور پھر بعد میں قطری خط سے دوری اختیار کی، اس پر قانونی لوگ تو حیران و پریشان ہیں، کیوں کہ انہی دو نکات پر انہوں نے اپنا پہلا ایون فیلڈ کیس لڑا تھا۔ اب ایک کیس میں جس کو دفاع بنایا گیا، دوسرے کیس میں خود اسے ہی ردی میں پھینک رہے ہیں، تو اس کے قانونی نتائج اچھے نکلنے کی امید تو نہیں کرنی چاہئے۔ انہیں جس نے بھی اس قانونی یوٹرن کا مشورہ دیا ہے، اس نے اچھا نہیں کیا، کیونکہ قانونی یوٹرن سیاسی یوٹرن کی طرح آسان نہیں ہوتے۔ سیاسی یوٹرن تو دوچار روز کے لئے اسکرین پر چلتے ہیں، پھر غائب ہو جاتے ہیں، لیکن قانونی یوٹرن تو آپ کو بڑے حادثے سے دوچار کرسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے نواز شریف نے سوچا ہو کہ تاحیات نااہلی تو پہلے ہی ہو چکی ہے، اب یوٹرن سے اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے، اس لئے یوٹرن کا جوا کھیل کر دیکھا جائے۔ ان کے قانونی مشیروں نے کیا سوچ کر انہیں اس یوٹرن کا مشورہ دیا، یہ تو وہی جانتے ہوں گے، لیکن کئی بڑے قانونی ماہرین اس یوٹرن کو نواز شریف کے لئے بہت خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں، اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زردای بھی آج کل یوٹرن کے ذریعے اپنی سیاسی گاڑی کو مقدمات کے ٹریفک جام سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسپیکر سے لے کر صدر کے انتخاب تک وہ اپوزیشن کو چوک پر کھڑا کرکے خود کئی یوٹرن لے چکے ہیں۔ لیکن ہر یوٹرن کے بعد جس نئی سڑک پر چڑھتے ہیں، وہاں بھی کوئی نہ کوئی سارجنٹ انہیں نظر آجاتا ہے۔ اب پہلے تو انہوں نے دھواں دھار پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ تحریک انصاف حکومت چلانے کے قابل نہیں، اس کے خلاف اپوزیشن کو مل کرقرار داد لانی ہوگی، لیکن اس اعلان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر انہوں نے حکومت کو تعاون کی پیشکش کر ڈالی اور یہ بھی بھول گئے کہ اتنی تیزی سے یوٹرن لینے سے گاڑی الٹ تو سکتی ہے، اسے راستہ نہیں مل سکتا۔ سو اس یو ٹرن سے بھی انہیں راستہ نہیں مل سکا، بلکہ ن لیگ کی طرف سے کچھ تعاون کی امید تھی، سو وہ بھی ختم ہوگئی۔ انہیں سمجھ آگئی کہ پی پی پی قائد صرف اپنی سیاسی گاڑی کو چالان سے بچانے کے لئے یوٹرن لے رہے ہیں اور اس کے لئے ن لیگ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کے تو پہلے ہی ’’چالان‘‘ در ’’چالان‘‘ کٹ رہے ہیں، اگر انہوں نے آصف زرداری کی سیاسی گاڑی کو ’’چالان‘‘ سے بچانے کے لئے ان کی مدد کی تو یہ نہ ہو کہ ان کے سیاسی ’’چالان‘‘ کی رقم بھی انہیں بھرنی پڑ جائے۔
ایک طرف پی پی پی قیادت ’’چالان‘‘ سے بچنے کے لئے یوٹرن سمیت ہر حربہ استعمال کر رہی ہے تو دوسری جانب یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’چالان‘‘ سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ وہ مزید مقبول ہو جائیں گے۔ ویسے سچی بات یہ ہے اگر واقعی ’’چالان‘‘ سے انہیں مقبولیت مل سکتی ہے تو پھر تو انہیں یوٹرن وغیرہ چھوڑ کر سارجنٹ کے سامنے گاڑی کھڑی کردینی چاہئے، بلکہ ٹکر مار دینی چاہئے۔ کیوں کہ سیاسی رہنماؤں کے پاس مقبولیت سے زیادہ بڑا کوئی اثاثہ نہیں ہوتا، مگر ہمیں تو لگتا ہے کہ پی پی پی قیادت جو پہلے ’’مقبول‘‘ ہو کر سندھ تک محدود ہو چکی ہے، کسی ’’چالان‘‘ کی صورت میں اس نے مزید ’’مقبولیت‘‘ حاصل کی تو وہ نوابشاہ اور لاڑکانہ تک محدود ہو سکتی ہے۔ تخت کراچی ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ مشہور زمانہ پرویز مشرف کے این آر او سے متعلق تو آپ نے سنا ہی ہوگا، خیر سے اس این آر او کی دوسری فریق پیپلز پارٹی تھی اور اس کے ضمانتی امریکہ اور برطانیہ۔ مگر آج کل آپ کو پی پی پی رہنما یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ این آر او انہوں نے کبھی نہیں کیا۔ این آر او کے ذریعے تو نواز شریف اور عمران خان کو اقتدار ملا۔ ویسے وہ سچ ہی کہتے ہیں، کیوں کہ انہوں نے این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈی نینس سے استفادہ نہیں کیا تھا، بلکہ آئی (انٹرنیشنل) آر او کیا تھا۔ یعنی انٹرنیشنل طاقتوں سے مفاہمت کی تھی۔ آگے کا کام تو ان طاقتوں نے پرویز مشرف کے ذریعے سیدھا کرکے دیا تھا۔
سیاست کا ذکر آئے اور مولانا فضل الرحمن کا نام نہ آئے، یہ تو ممکن نہیں۔ مولانا جب سے الیکشن ہارے ہیں، بہت بے چین نظر آتے ہیں، وہ سکون کے لئے بہت سے یوٹرن لے چکے ہیں، لیکن وہ جہاں گاڑی موڑتے ہیں، اپوزیشن کی جماعتیں انہیں دیکھ کر دوسری سڑک پر بھاگ جاتی ہیں۔ اسمبلیوں کے بائیکاٹ سے لے کر کل جماعتی کانفرنس تک مولانا نے بہت کوشش کر لی کہ کسی طرح اپوزیشن کی گاڑی کو ایسا یوٹرن دلوایا جائے کہ وہ حکومت کی گاڑی سے جا ٹکرائے، لیکن ان کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ اب مایوس ہو کر انہوں نے خود ہی متحدہ مجلس عمل کے نام سے ملین مارچ شروع کر دیئے ہیں، لیکن یہاں بھی ان کی قسمت خراب لگتی ہے، کیوں کہ ایم ایم اے کی دوسری بڑی جماعت یعنی جماعت اسلامی اب مولانا سے فاصلہ اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ وہ مولانا کی سیاسی بس سے اتر کر اپنی گاڑی الگ سے چلانے کے لئے کسی یوٹرن پر بس آہستہ ہونے کے انتظار میں ہے۔ اسی لئے مولانا کے مارچ میں اس کی شرکت زیادہ نظر نہیں آئی۔
٭٭٭٭٭
Next Post