اگر جان کی امان پائیں توحافظ جی وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کی خدمت میں لب کشائی کی جسارت کریں… ’’حضور والا! آپ اپنے بوتھے کی طرح دل بھی ذرا بڑا رکھیں اور مخالفین کی غلطیوں کو در گزر کرکے معاملات صاف کرلیا کریں۔ اعظم سواتی اور فیاض الحسن چوہان نہ بن جایا کریںکہ اس سے ذہنی خلجان بڑھتا اور سیاسی نقصان کا اندیشہ غالب رہتا ہے۔ چیئرمین کی رولنگ پر آپ کو سینیٹ کے اجلاس سے بے دخل کرنے کی کہانی بھی بر سر اقتدار پارٹی کی حیثیت میں منفرد اور ریکارڈ واقعے سے ہرگز کم نہیں۔ سوال یہ ہے کہ صادق سنجرانی تو آپ کے حمایتی اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہوئے، پھر کیوں انہیں ایساسخت فیصلہ کرنا پڑا؟ کیا آپ کو یاد نہیں ایک بے چاری گائے پر غصہ نکالنے پر آپ کے مربی اعظم سواتی کن مسائل کا شکار ہو چکے ہیں؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا واسطہ کسی گائے بیل سے نہیں ، مشاہد اللہ خان جیسے کہنہ مشق بیت باز سے پڑا ہے، جو ’’شیر‘‘ کی محبت میں شعروں کی مار مارنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہیں وہ بھی مفاد کے بندے، مگر سیاسی کھیل کھیلنا اچھی طرح جانتے ہیں، وقت سے پہلے اپنے شو نہیں کرتے، جبکہ آپ سارے پتے شو کر کے شور کرتے ہیں۔
ٹھیک ہے فواد کے معنیٰ دل کے ہوتے ہیں، لیکن زور خطابت میں دل کے ساتھ ساتھ دماغ کا استعمال بھی کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، معاملات پر درگزر سے کام لیا جائے تو ہلدی پھٹکری لگے بنا رنگ چوکھا آتا ہے، اعلیٰ حکومتی عہدے پر رہتے ہوئے تو زبان کھولتے وقت سوبار سوچنا پڑتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ اور آپ کی لیڈر شپ بولتی پہلے سوچتی بعد میں ہے۔ ممکن ہے یہ آپ کی پارٹی کا مینو فیکچرنگ فالٹ ہو۔اگر ایسا ہے تو اسے ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے ورنہ آپ میں اور عامر لیاقت میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ لہٰذا احتیاط شرط ہے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ تیسری پارٹی میں یہ آپ کی پہلی، پہلی وزارت ہے اور وزارت بھی اطلاعات و نشریات کی۔ آپ کے تو اشارۂ ابروپر خبر بن جاتی ہے کہ میڈیا سائے کی طرح آپ کے ساتھ پھرتا ہے اور چیف جسٹس بھی نوٹس لینے میں دیر نہیں لگاتے۔ یاد ہے ناں آئی جی اسلام آباد کی معطلی پر آپ کی غیر محتاط گفتگو آپ کو چیف جسٹس کے روبرو لے گئی تھی، جہاں انہوں نے آپ کو اور آپ کی حکومت کو آئین اور قوانین سے آگہی کا ڈوز دیا تھا اور کس انداز میں دیا تھا کہ آپ کے پلے کھسیانی مسکراہٹ اور معذرت کے الفاظ کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ چنانچہ حافظ جی کا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ بیک وقت سب سے پنگا نہ لیں بلکہ ’’ہتھ ہولا رکھیں۔‘‘
ابھی کچھ روز پہلے جب وزیر اعظم جین کے شہر بیجنگ کے دورے پر ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو سرکاری ٹی وی کی یک لفظی غلطی جس میں اس نے بیجنگ کو ’’بیگنگ‘‘ لکھا، اس پر بھی آپ نے سخت برہمی اور ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے متعلقین پر انکوائری بٹھا دی تھی۔ بیس سیکنڈ کے اسکرین شارٹ پر آپ نے سرکاری بھونپو کے بیسیوں لوگوں کو لائن حاضر کرایا، سازشی عناصر کی تلاش میں انکوائری بٹھائی، مگر ہوا کیا؟ کیا بیگنگ کا تاثر زائل ہو گیا؟ آپ کی کارروائی کے بعد معاملہ ان لوگوں میں بھی ڈسکس ہوا جو ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ ممکن ہے وہ لفظ آپ کی حکومت کے خلاف سازش کے تحت ہی لکھا گیا ہو، مگر اس پر بلند آہنگی کی ضرورت ہرگز نہ تھی، خاموش تحقیقات اور تدبرانہ باز پرس سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔ ہر کام زبان سے کرنا ضروری تو نہیں، کچھ سمجھ اور حکمت عملیوں سے بھی کئے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے ذمہ داران کے لئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ضروری یوں بھی ہے کہ ایک تو ان کی جماعت پہلی بار اقتدار میں آئی ہے، سو ناتجربہ کاری بہت سے معاملات پر اثر انداز ہوکر مسائل کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ تحریک انصاف والوں کو نہیں بھولنا چاہئے کہ انہیں ایک تگڑی اپوزیشن کا سامنا ہے، جس میں ایک دو نہیں، درجنوں منجھے ہوئے سیاسی مہروں سے ان کا واسطہ ہے، پھر وزیر اعظم اور وزراء کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی بھی ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اعظم سواتی، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، فیصل واوڈا تو راست گوئی کے شبہے میں سخت گوئی کے لئے مشہور تھے ہی کہ اب زلفی بخاری جیسے نواواردان سیاست نے بھی اپنا نام اسی فہرست میں درج کرا لیا ہے۔ موصوف نے اپنا ’’ایوارڈ بلند آہنگی‘‘ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار سے اس وقت حاصل کیا جب جمعے کے روز عدالت عظمیٰ نے ان کی تقرری اور اہلیت کی جانچ کے معاملے پر ان کے معترضین کی درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت زلفی بخاری کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کی تقرری آئینی عہدہ نہیں، بلکہ رولز آف بزنس کا معاملہ ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات کے لئے دہری شہریت کا حامل فرد ہی بہتر چوائس ہو سکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے قرار دیا کہ وزیر اعظم چاہیں تو باراک اوباما سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کو انہیں یاد دہانی کرانی پڑی کہ وزیر اعظم کو بے لگام اختیارات ہرگز حاصل نہیں، اعلیٰ عہدوں پر تقرری میں اقرباء پروری نظر نہیںآنی چاہئے، ملکی معاملات دوستی یاری میں نہیں بلکہ قومی مفادات میں چلنے چاہئیں۔ اس دوران زلفی بخاری نے بزعم اونچی آواز میں ججز کے سامنے بولنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے ان کے رویئے پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے انہیں مخاطب کیا اور کہا کہ وہ اپنا غصہ گھر چھوڑ کر آیا کریں۔ چیف جسٹس نے وزیر اعظم عمران خان کا نام لئے بنا زلفی بخاری سے کہا کہ وہ عدالت کے نہیں کسی اور کے دوست ہوں گے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری بھی عمران خان کے ان دوستوں میں شامل ہیں، جنہیں مخالفین ان کی اے ٹی ایم مشینیں قرار دیتے ہیں۔ عدالت نے زلفی بخاری کے طمطراق کو بالخصوص نوٹ کیا اور اہلیت، تقرر کے طریقہ کار اور ان کے بارے میں دیگر معلومات کی رپورٹ آئندہ سماعت پر پانچ دسمبر کو طلب کرلی ہے۔
گرداب میں لپٹی حکومت وقت کے سربراہ پر ایک بھاری ذمہ داری یہ آن پڑی ہے کہ اسے اپنے مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم کے اراکین کے دفاع کا معاملہ بھی درپیش ہے، گویا کشتی میں سوراخ ہی سوراخ ہیں، کہیں اعظم سواتی کی ذاتی انا ہے تو کہیں فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کی دروغ گوئیاں۔ فواد چوہدری سینیٹ میں اپنے حوالے سے کی گئی کارروائی پر وزیر اعظم کے جس ریمارکس کو سینہ تان کر سناتے ہیں، علی محمد خان سینیٹ اجلاس میں بڑی عاجزی کے ساتھ اس کی نفی کر دیتے ہیں۔ ایس پی طاہر داوڑ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ اور وزیر اعظم کے مشیر کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کا کوئی فرد ایک پیج پر نہیں، آپس میں رابطوں کا یہی فقدان بتاتا ہے کہ حکومت میں درون خانہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہیں، جن کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے اور یہی اندرونی انتشار حکومت کو الجھائے کارکردگی دکھانے سے دور کئے ہوئے ہے۔
گستاخی معاف! جس نئی نویلی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ہی مذکورہ بالامسائل سے دوچار ہو جائے، وہ مخالفین کی چلہ کشی کی زد میں آئے بنا کیسے رہ سکتی ہے؟ سو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایسے ہی اثر میں ہے، جہاں مشاہد اللہ خان دبا کر بیت بازی کر رہے ہیں، زرداری کرکٹرز کے بجائے حکومت پولو کھیلنے والوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نون لیگ والے خاموش احتجاج میں مصروف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حکومت مخالف خود ساختہ وظائف کا سہارا لئے کسی گرین سگنل کے منتظر ہیں۔ رہے حکو متی نادان تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں، وزیر اطلاعات فواد چوہدری ببانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان حکومت کی قربانی دے دیں گے، مگر اپنی ’’رٹ‘‘ سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اب ایسے میں حافظ جی ہی نہیں، ہر محب وطن شہری متفکر ہے، کیوں کہ وہ ملک میں انتشارکے بجائے استحکام دیکھنا چاہتا ہے۔ سو چوہدری فواد کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ ’’ہتھ ہولا چوہدری صاحب۔‘‘ (وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭
Prev Post