حضرت مولانا حافظ احمد سعید دہلویؒ اپنی کتاب موسوم بہ ’’وعظ سعید‘‘ حصہ اول کے ص 161 پر حضرت مولانا قطب الدین محدث دہلویؒ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت محدثؒ نے اپنی تصنیفات میں ایک حکایت لکھی ہے کہ میرے پاس ایک جوڑا چکور کا تھا۔ اس کی مادہ کی آنکھوں میں موتیا کا پانی اتر آیا تھا۔ اس لئے اس کی نظر جاتی رہی۔ لیکن آنکھیں بدستور قائم تھیں۔
ایک روز میں نے چاہا کہ خدا کے واسطے ان کو آزادی دے دوں۔ جب پنجرے کا دروازہ کھولا تو اس کا نر پرواز کر گیا۔ مادہ پرواز نہ کر سکی۔
میںکیا دیکھتا ہوں کہ تھوڑی دیر میں اس کا نر ایک چھوٹی سی نیلگوں لکڑی اپنی چونچ میں لے آیا اور میرے سامنے اس لکڑی کو اپنی مادہ کی آنکھوں میں پھیرا۔ پھر اس کی آنکھوں سے ایک دو قطرے پانی کے نکلے۔ چکور نے اس لکڑی کو میری طرف پھینک دیا اور وہ دونوں پرواز کر گئے۔ میں نے اس خیال سے کہ حق تعالیٰ نے اس لکڑی میں کیا تاثیر رکھی ہے، اسے اٹھا کر اپنے عمامہ (پگڑی) میں رکھ لی۔ چوں کہ مجھے اس وقت کوئی ضروری کام کے سلسلے میں فتح پور جانا تھا۔ گھر سے سیدھا نکل گیا۔ جس وقت قاضی کے حوض کے قریب پہنچا تو سامنے ایک جنازہ دیکھا، جس کو لوگ اٹھائے ہوئے چلے آرہے ہیں اور اس جنازہ کے سامنے دو آدمی تھے۔ ایک تو نہایت خوب صورت صاف ستھرا عمدہ لباس پہنے ہوئے، دوسرا نہایت بدشکل سیاہ فام تھا۔ دونوں جنازے کے آگے آگے کشتی لڑتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ خوب صورت آدمی بدشکل کو بچھاڑ دیتا ہے۔
میں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم بھی کچھ دیکھتے ہو، جو میں دیکھتا ہوں؟ جنازہ کے آگے جانے والے لوگوں نے کہا: حضرت مولانا! ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔
حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے خیال کیا اور سمجھا کہ اس لکڑی (جو دستار میں تھی) کی تاثیر ہے۔ لیکن اپنے دل میں کہا کہ الٰہی یہ کیا معاملہ ہے، پھر اسی شش و پنچ میں قبرستان پہنچے تو قبر تیار تھی۔ میں نے اس میت کو قبر میں خود اتارا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی خوب رو اور حسین شخص اس میت کے ساتھ ایسے لیٹ گیا، جیسے ماں اپنے بچے کے ساتھ۔ بعد دفن کے فاتحہ پڑھ کر واپس آنے لگے تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بدصورت آدمی (جو جنازہ کے آگے کشتی کررہا تھا) ہمارے آگے آگے چلا جاتا ہے، میں نے جلد دوڑ کر اسے پکڑلیا اور دریافت کیا تو کون ہے؟
اس نے عرض کیا: مولانا آپ کیوں دریافت کرتے ہیں؟ کہا کہ ہمارا کام تحقیق کرنے کا ہے۔ اس نے کہا کہ میں اس (میت) کے اعمال بد ہوں۔ میں نے پوچھا وہ دوسرا کون تھا، جو قبر میں اس کے ساتھ لیٹ گیا؟ کہا وہ اس کے اعمال نیک تھے، جو ہمیشہ ہمیشہ تا قیام قیامت اس کے ساتھ رہے گا۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ اصل معامہ کیا تھا؟
کہا کہ اس نیک شخص نے مرنے سے پہلے اپنے مال کو (اہل و عیال کا حق ادا کرنے کے بعد) کچھ خدا کے واسطے غرباء میں تقسیم کردیا تھا۔ اس لئے اس کا نامہ اعمال مجھ سے وزنی ہوا اور یہ صلہ اسے نصیب ہوا، ورنہ میں اس کے ساتھ رہتا ہمیشہ اس کو تکلیف دیتا۔
یاد رہے کہ حضرت قطب الدین محدث دہلویؒ کو جنازہ کے آگے جو دو آدمی کشتی کرتے ہوئے نظر آئے، جیسا کہ گزرا ہے، مشائخ عظام نے لکھا ہے کہ ایسی چیزوں کا تعلق امور کشفیہ سے ہے، جو ہر شخص کو محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی دیکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ مولانا زکریا مہاجر مدنیؒ نے فضائل قرآن کے ص 460 پر لکھا ہے کہ بزرگان دین و مشائخ نے لکھا کہ شب قدر میں ہر چیز خدا کو سجدہ کرتی ہے، حتیٰ کہ درخت زمین پر گرجاتے ہیں اور پھر اپنی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن یہ چیزیں ہر آدمی نہیں دیکھ سکتا۔ سوائے صاحب کشف کے۔
Prev Post
Next Post