سنگاپور میں ایک سرنگون روڈ ہے۔ جہاں انڈین، خاص طور پر مدراسی ٹائپ ہوٹلز، دکانیں اور ہندوؤں کا ایک بڑا مندر ہے۔ یہ علاقہ لٹل انڈیا بھی کہلاتا ہے۔ اس روڈ پر قائم مصطفی کی دکان برسوں سے مشہور ہے۔ جب ہم جہاز پر ہوتے تھے تب بھی اور ملائیشیا کے شہر ملاکا میں رہائش کے دوران بھی شاپنگ کے لئے سنگاپور آکر مصطفی سینٹر کا چکر ضرور لگاتے تھے۔ ساؤتھ انڈین مصطفی کا یہ اسٹور مناسب قیمت کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا تھا۔
’’پھر آپ نے سنگاپور کیوں چھوڑا؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’دراصل میں جن لوگوں کے ساتھ آیا تھا، انہیں سنگاپور میں کام کرنے میں مزہ نہیں آیا۔ انہوں نے سنگاپور سے واپس اپنے ملک جانے کا پروگرام بنایا۔ وہ وہاں سے پھر روزگار کی تلاش میں کسی دوسرے ملک جانے کا ارادہ رکھتے تھے‘‘۔
’’آپ سنگاپور میں کتنا عرصہ رہے؟‘‘
’’دو ڈھائی ماہ کے بعد میرے دوست بشیر چنا نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ جب اس نے مجھ سے بات کی تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ میں بالکل مفلس تھا۔ میرے پاس اپنی رقم تو تھی نہیں۔ میں بار بار ان پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اس لئے میں سنگاپور میں ٹھہر گیا اور وہ لوگ سکھر چلے گئے‘‘۔
’’آپ نے سنگاپور کب چھوڑا؟‘‘
’’میں مزید ایک ماہ سنگاپور میں رہا‘‘۔ علی نے جواب دیا۔ ’’لیکن ایک تو مجھے پورے کمرے کا کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا، دوسرے سنگاپور میں فارنرز اور غیر قانونی طور پر رہنے والوں کی پکڑ دھکڑ میں اضافہ ہوگیا تھا‘‘۔
’’پھر آپ نے ملائیشیا آنے کا کیسے سوچا، جبکہ آپ کے پاس ملائیشیا کا ویزا بھی نہیں تھا؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’سنگاپور میں رہتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ ملائیشیا میں بہت زیادہ عمارتیں، پل، ریلوے اسٹیشنز اور کارخانے تعمیر ہورہے ہیں۔ جہاں ہر قسم کے محنت کش کی ضرورت ہے۔ اس لئے میں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔ میرے پاس ملائیشیا کا ویزا نہیں تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو رقم لے کر غیر قانونی طور پر سرحد پار کرا دیتے ہیں۔ سنگاپور میں رہنے والے ایک ایسے ہی شخص سے میری ملاقات ہوئی۔ اس نے مجھ سے اس کام کے بیس ہزار روپے کے برابر سنگاپوری ڈالر طلب کئے۔ میں نے اسے بتایا کہ رقم نام کی کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے۔ میں یومیہ اجرت پر کام کرتا ہوں اور میری آمدنی میرے کھانے پینے ہی میں خرچ ہوجاتی ہے۔ البتہ میرے پاس سنگاپور سے کراچی تک کا ریٹرن ٹکٹ موجود ہے جو نہ تو کیش ہوسکتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی دوسرا استعمال کرسکتا ہے۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ٹکٹ کے عوض مجھے ملائیشیا کی سر زمین پر پہنچانے کی ہامی بھری۔ اس نے کہا کہ وہ میرا ٹکٹ کیش کرا سکتا ہے یا نہیں، یہ اس کا نصیب۔
’’طے شدہ پروگرام کے مطابق میں سنیچر کی شام کو اس کے پاس پہنچا۔ ہفتے کی شام کو، بلکہ رات گئے تک سنگاپور ملائیشیا کے بارڈر پر رش رہتا ہے۔ اس نے رات بارہ بجے مجھے اپنی کار کی ڈکی میں ڈالا اور کازوے سے گزار کر جوہر بارو پہنچا دیا‘‘۔
قارئین کیلئے تحریر کرتا چلوں کہ ملائیشیا، پاکستان کی طرح خاصا بڑا ملک ہے۔ یہ شمال میں تھائی لینڈ سے جا ملتا ہے، جس طرح پاکستان شمال میں افغانستان سے ملا ہوا ہے۔ سنگاپور، ملائیشیا کے جنوب میں ایسا مختصر جزیرہ ہے جیسے پاکستان کے جنوب میں منہوڑا ہے۔ سنگاپور جزیرہ، ملائیشیا کے سرحدی شہر جوہر بارو کے ساتھ سمندری پل کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ اس دو میل طویل پل پر سے پیدل لوگ، بسیں، کاریں اور ٹرینیں گزرتی ہیں۔ جوہر بارو شہر ملائیشیا کی سر زمین کے انتہائی سرے (TIP) پر بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں کیماڑی ہے۔
سنگاپور سے جوہر بارو (ملائیشیا) جاتے ہوئے مذکورہ پل (کازوے) کے ایک سرے پر سنگاپور حکومت کے امیگریشن افسر پاسپورٹ چیک کرتے ہیں اور کسٹم والے مشکوک گاڑیوں کو چیک کرتے ہیں۔ پانچ منٹ میں پل سے گزرنے کے بعد دوسری جانب موجود ملائیشیا کا عملہ پاسپورٹ چیک کرتا ہے۔ وہاں بھی کبھی کبھی کاروں کی چیکنگ ہوتی ہے کہ سنگاپور سے کوئی ایسا سامان تو نہیں لے جایا جارہا جس پر کسٹمز ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔
’’مجھے لے جانے والی کار سنگاپور کے بارڈر پر رکی اور چند منٹ کے بعد روانہ ہوگئی۔ اس نے دو میل طویل پل کا سفر طے کیا اور جوہر بارو کے امیگریشن چیک پوسٹ پر رک گئی۔ وہاں تقریباً پانچ چھ منٹ تک کار رکی رہی اور پھر چل پڑی۔ بیس پچیس منٹ کا یہ مختصر سا سفر میرے لئے زندگی اور موت کا سفر تھا۔ اس وقت گزرنے والا ایک ایک منٹ مجھے گھنٹوں پر محیط معلوم ہوا تھا۔ بارڈر سے گزرنے کے بعد اس اجنبی شخص نے جوہر بارو کے بس اسٹاپ پر پہنچ کر کار روکی اور ڈکی کھول کر مجھے باہر نکالا۔ اس نے مجھ سے ریٹرن ٹکٹ لے کر جیب میں ڈالا اور اپنے پرس سے دس رنگٹ (ملائیشین ڈالر) کا نوٹ نکال کر میری ہتھیلی پر رکھا۔
’’یہ لو دس رنگٹ!‘‘ اس نے کہا۔ ’’اب تم جانو اور تمہاری قسمت… میں چلا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھا اور واپس روانہ ہوگیا۔ میں اسے سنگاپور کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور سوچنے لگا کہ اب کہاں جاؤں؟
میں آدھی رات کے وقت ایک اجنبی ملک اور شہر کی سڑک کے کنارے بے یارو مددگار کھڑا تھا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post