بحر ظلمات میں دوڑادیئے گھوڑے

0

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ لشکر لے کر دریا کے کنارے موجود تھے۔ بہرہ شیر اور مدائن میں دریائے دجلہ حائل تھا۔ حضرت سعدؓ بہرہ شیر سے بڑھے تو آگے دریا تھا۔ ایرانیوں نے پہلے سے جہاں جہاں پل بندھے تھے توڑ کر بیکار کر دیئے تھے۔ حضرت سعدؓ دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو نہ پل تھا اور نہ کشتی۔ دوسرے کنارے پر ایرانی فوج بھی متعین تھی جو عبور دریا سے مانع تھی۔ دوسرے روز حضرت سعدؓ نے گھوڑے پر سوار ہوکر اور تمام فوج کی کمر بندی کرا کر فرمایا: تم میں کون ایسا بہادر سردار ہے، جو اپنی جمعیت کے ساتھ اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ ہم کو دریا کے عبور کرنے کے وقت دشمن کے حملے سے بچائے گا، حضرت عاصم بن عمروؓ نے اس خدمت کی ذمہ داری قبول کی اور چھ سو تیر اندازاوں کی ایک جماعت لے کر دریائے دجلہ کے اس کنارے ایک اونچے مقام پر جا بیٹھے حضرت سعدؓ نے اپنے رب کا نام لے کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ان کی تقلید میں دوسروں نے بھی جرأت سے کام لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لشکر اسلام دجلہ کی طوفانی موجوں کا مقابلہ کرتا ہوا دوسرے کنارے کی طرف متوجہ ہوا۔
دریا اگرچہ نہایت ذخار اور مواج تھا، لیکن ہمت اور جوش نے طبیعتوں میں یہ استقلال پیداکر دیا تھا کہ موجیں برابر گھوڑوں سے آ آ کرٹکراتی تھیں اور یہ رکاب سے رکاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کریمین و یسارکی جو ترتیب تھی، اس میں بھی فرق نہ آیا۔ دوسرے کنارے پر ایرانی یہ حیرت انگیز تماشا دیکھ رہے تھے۔ جب فوج بالکل کنارے کے قریب آ گئی تو ان کو خیال ہوا کہ یہ آدمی نہیں، جن ہیں۔ چنانچہ ’’دیواں آمدند دیواں آمدند‘‘ (تاریخ طبری میں بعینہ یہی الفاظ ہیں) کہتے ہوئے بھاگے۔ تاہم سپہ سالار خرزاد تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور گھا ٹ پر تیر اندازوں کے دستے متعین کیے۔ ایک گروہ دریا میں اتر کر سد راہ ہوا، لیکن مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور تیر اندازوں کو خس و خاشاک کی طرح ہٹاتے پار نکل گئے۔ یزدگرد نے حرم اور خاندان شاہی کو پہلے ہی حلوان روانہ کر دیا تھا۔ یہ خبر سن کر خود بھی شہر چھوڑ کر نکل گیا۔ حضرت سعدؓ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا۔
فتح مدائن:… یزد جرد مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اہل وعیال اور خزانوں کو مدائن سے روانہ کرچکا تھا، تاہم قصر ابیض (شاہی محل) اور دارالسلطنت میں مال و دولت کی کمی نہ تھی، اسلامی لشکر کے دریا عبور کرلینے کا حال سن کر یزدجرد بھی مدائن سے چل دیا، مسلمانوں نے شہر کی مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونا شروع کیا، خود باشندگان شہر نے شاہی محلات کی لوٹ مار مسلمانوں کے پہنچنے اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے شروع کردی تھی۔ حضرت سعدؓ قصر ابیض میں داخل ہوئے اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ آیتیں نکلیں: ’’کم ترکوا… تا… قوما آخرین۔‘‘
حضرت سعدؓ نے وہیں ایک سلام سے آٹھ رکعتیں صلوۃ الفتح کی پڑھیں، جمعہ کا روز تھا، قصر ابیض میں جس جگہ کسریٰ کا تخت تھا، وہاں منبر رکھا گیا اور اسی قصر میں جمعہ ادا کیا گیا، یہ پہلا جمعہ تھا جو دارالسلطنت ایران میں ادا کیا گیا، اس شاہی محل میں جس قدر تصاویر وتماثیل تھیں، وہ علیٰ حالہ قائم رہیں، نہ حضرت سعدؓ نے ان کو توڑ ا پھوڑا نہ وہاں سے جدا کیا بوجہ نیت اقامت اس قصر میں نماز کو قصر بھی نہیں کیا گیا، زہرہ بن حیوۃ کو ایرانیوں کے تعاقب میں نہروں کی جانب روانہ کیا گیا، مال غنیمت کے فراہم کرنے پر عمرو بن مقرن کو اور اس کی تقسیم پر سلیمان بن ربیعہ باہلی کو مامور کیا گیا، مال غنیمت میں
شہنشاہ ایران کی بہت سی نادر روزگار چیزیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔ چاندی سونے اور جواہرات کی مورتیں، کسریٰ کا شاہی لباس اس کا زرنگار تاج، اس کی زرہ اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں مسلمانوں نے ان بھاگنے والوں سے چھینیں، جو ان چیزوں کو لے لیکر ایوان شاہی سے بھاگتے تھے، ایوان شاہی کے خزانے اور عجائب خانے میں خاقان چین، قیصر روم داہرہ شاہِ ہند، بہرام گور، سیاوش، نعمان بن منذر، کسریٰ، ہرمز فیروز کے خود زر ہیں، تلواریں اور خنجر دستیاب ہوئے، جو عجائب روزگار سمجھ کر شاہی خزانے میں محفوظ رکھے جاتے تھے اور ایرانی ان چیزوں پر فخر کیا کرتے تھے۔ ان چیزوں کے فراہم ہو جانے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت قعقاعؓ کو اجازت دی کہ تلواروں میں سے تلوار کو پسند کر لو۔ حضرت قعقاعؓ نے یہ سن کر قیصر روم ہرقل کی تلوار اٹھالی، پھر حضرت سعدؓ نے اپنی طرف سے بہرام گور کی زرہ بھی ان کو مرحمت فرمائی۔
حضرت سعدؓ نے علاوہ خمس کے جو چیزیں نادرات روزگار میں شمار ہوتی تھیں، وہ سب جمع کرکے دربار خلافت کو روانہ کردیں، انہیں نادرات روزگار میں کسریٰ کا فرش تھا جو بہار کے نام سے موسوم تھا، یہ فرش نوے گز لمبا اور دس گز چوڑا تھا، اس میں پھول، پتیاں، درخت، نہریں، تصویریں، غنچے سب سونے چاندی، اور جواہرات سے بنائے گئے تھے۔ شاہانِ فارس جب موسم بہار گزر جاتا تھا، تو اس کی یاد میں اس فرش پر بیٹھ کر شراب نوشی کیا کرتے تھے، جب یہ تمام چیزیں مدینہ منورہ میں پہنچیں تو لوگ دیکھ کر حیران ہوگئے، سیدنا فاروق اعظمؓ نے تمام سامان واسباب کو لوگوں میں تقسیم کردیا، فرش کی نسبت عام طور پر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اس کو تقسیم نہ کیا جائے، لیکن حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نہیں اس کو بھی تقسیم کردیا جائے۔ چنانچہ فاروق اعظمؓ نے حضرت علیؓ کی رائے سے اس فرش کو بھی کاٹ کاٹ کر لوگوں میں تقسیم کردیا، حضرت علیؓ کے حصے میں جو فرش کا ٹکڑا آیا تھا، وہ بہت نفیس ٹکڑوں میں نہ تھا، تاہم انہوں نے اس کو تیس ہزار دینار میں فروخت کر دیا۔ (تاریخ اسلام)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More