262 ویں و آخری قسط
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
وزیر خانم سے سب حال سن کر نواب مرزا اور خورشید مرزا نے برہم ہو کر کہا کہ ہم ابھی اس جگہ کی خاک اپنے دامن اور پاپوش سے جھاڑتے ہیں۔ اماں جان جہاں دل کرے وہاں چلی چلیں۔ کچھ نہیں تو خانم کے بازار والا گھر تو موجود ہی ہے، ورنہ ہم تو ان کے ساتھ جنگل بیابان میں گھر بنانے کو تیار ہیں۔ ہم لکڑیاں کاٹیں گے، جنگلی پھلوں پر گزارا کریں گے لیکن قلعے کا منہ نہ دیکھیں گے۔
’’اماں نہیں بھئی، اتنی جلدی نہ کرو‘‘۔ مرزا ابوبکر نے کہا۔ ’’میں ابھی خان سامانی کو جاتا ہوں۔ حکیم محمد احسن اللہ خان بہادر کو بیچ میں ڈالوں گا۔ ظل سبحانی ان کا مشورہ آسانی سے رد نہیں فرماتے‘‘۔
’’صاحب عالم، ذرا سوچ لیجئے‘‘۔ وزیر خانم نے مرزا ابوبکر کی آستین تھام کر کہا۔ ’’اگر خان ساماں بہادر اس معاملے میں پڑنے کو تیار بھی ہوگئے، ہرچند کہ مجھے اس میں شک ہے، اور نواب زینت محل کو زک پہنچ بھی گئی، لیکن تابکے یہ صورت رہے گی؟ وہ تو اپنی سی کرنے سے باز آنے سے رہیں، اور یہ جو سازش کا شیطان انہوں نے گھڑا ہے، یا لوگوں نے ان کو باور کرایا ہے، وہ پھر بھی سر اٹھاتا رہے گا۔ ہم سب کی زندگی اور بھی اجیرن ہو جائے گی‘‘۔
’’تو پھر آپ کیا چاہتی ہیں اماں جان؟ کیا نواب زینت محل کو من مانی کرنے دیا جائے؟‘‘۔
’’صاحب عالم اس میں من مانی کیا ہے؟ وہ جو چاہیں کر ہی سکتی ہیں، حضور انور کی چہیتی بیگم جو ٹھہریں۔ ان کے دل میں آپ کے ابا مرحوم کیخلاف کینہ اسی دن سے ہے جب اللہ بخشے وہ ولی عہد اول ہوئے تھے اور کوششیں نواب زینت محل کی ناکام ہوئی تھیں۔ اب تو زیادہ ضروری یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کی حفاظت کروں اور ہر چیز دیگر پر اسے مقدم جانوں‘‘۔
مرزا ابوبکر سوچ میں پڑ گئے۔ پھر بولے۔ ’’میں مرزا مغل چچا جان بہادر سے تو مشورہ کرلوں‘‘۔
’’کاہے کو مشورہ آپ کریں صاحب عالم؟ زینت محل ان کے اور مرزا قویش کے جلاپے سے یوں ہی تپ رہی ہیں، اب میرزا مغل بہادر کو اور مکلف کرنا کیا ضرور ہے‘‘۔ وزیر نے جواب دیا۔
’’آپ کو اپنا حق تو لینا چاہئے‘‘۔ مرزا مغل نے فرمایا۔
’’حق کیا شے ہے صاحب عالم؟‘‘ وزیر خانم نے زہر خند کے ساتھ کہا۔ ’’ساری زندگی میں حق ہی کی جویا رہی ہوں۔ وہ پہاڑوں کی کسی کھوہ میں ملتا ہو تو ملتا ہو، ورنہ اس آسمان تلے تو کہیں دیکھا نہیں گیا‘‘۔
مرزا ابوبکر نے وزیر کے لہجے میں تلخی کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ سوچنے لگے کہ سوتیلی لیکن غمزدہ ماں کو کیا جواب دیں جس سے اس کی کچھ تسلی ہو، کہ نواب مرزا بولا۔
’’صاحب عالم، میری مانیں تو آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ مجھے لگتا ہے یہ قلعہ میمونہ اب زیادہ دیر تک میمون و مصئون نہ رہے گا‘‘۔ نواب مرزا نے کچھ تردد کے لہجے میں کہا، اور یہ تردد صرف ماں کی اور اپنی حالت کے بارے میں نہ تھا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا نواب مرزا؟ میں قلعہ کیوں چھوڑوں؟‘‘۔ مرزا ابوبکر نے کہا۔ دونوں کم و بیش ہم عمر تھے، اس لیے ان میں بے تکلفی بہت تھی۔ ایک لمحہ توقف کے بعد انہوں نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔ ’’ہم اور مرزا مغل چچا بہادر تو اس خیال میں ہیں کہ مناسب موقع مل جائے تو ان کرشٹان فرنگیان ہی کو اپنے ملک سے نکال باہر کریں‘‘۔
نواب مرزا کا چہرہ فکرمندی سے بھر گیا۔ وہ کچھ دیر سرجھکائے رہنے کے بعد بولا۔ ’’برادر، یہ بات تو ہے کہ حاکمان نصرانیان کیخلاف رعایا کے دلوں میں، اور خاص کر سپاہیان دیسی کے دلوں میں کچھ نااطمینانی ہے۔ اور ادھر لکھنئو میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ مولوی احمد اللہ شاہ صاحب ہیں، جنہیں ڈنکا پیر کہا جاتا ہے۔ وہ علیٰ الاعلان لوگوں سے کہتے ہیں کہ انگریز ہندو کے دھرم کا اور مسلمان کے دین کا دشمن ہے۔ انگریز یہاں رہے گا تو دونوں ملتیں تباہ ہو جائیں گی۔ مگر میں سوچتا ہوں، کہ سورما چنا بھلا بھاڑ پھوڑ سکتا ہے؟‘‘
’’انہیں خیالات کے سبب تو ہم بے عمل ہوگئے ہیں نواب مرزا خان‘‘۔ مرزا ابوبکر نے ذرا تیز لہجے میں کہا۔
نواب مرزا نے مسکرا کر کہا۔ ’’صاحب عالم۔ آپ حضرت ظہیرالدین بابر کی اولاد ہیں، جنہوں نے ایک عالم کی مخالفت کے باوجود تنہا بجان واحد گھر سے نکل کر بخارا پر قبضہ کرلیا تھا اور مٹھی بھر جان نثاروں کی مدد سے کابل اور پھر ملک ہند کو دریائے شور تک لے لیا تھا۔ لیکن آپ کی طبع وقار پر روشن ہوگا کہ امام ابو حنیفہ فرما گئے ہیں کہ ظالم بادشاہ کیخلاف خروج اسی وقت جائز ہے جب فتح کا امکان ہو‘‘۔
مرزا ابوبکر ہنسے۔ ’’خروج کی بات ابھی بہت دور ہے نواب مرزا۔ پر تم خود ہی کہتے ہو کہ رعایا میں بہت بے اطمینانی ہے‘‘۔
’’سہی، لیکن بھائی ظہیرالدین حسین نے مجھ سے کہا کہ ان کے خسر فرما رہے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں تلوار چلے اور خونریزی عظیم ہو۔ بھائی ظہیرالدین حسین نے پوچھا، کیا روس کی فوج آنے والی ہے، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ امراللہ کو معلوم ہے‘‘۔
’’اللہ آپ لوگ یہ تیر تلوار کی باتیں نہ کریں‘‘۔ وزیر خانم نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔ ’’خدا جانے کون سن رہا ہو اور کیا مطلب اس کا نکالے۔ میں تو صرف یہ پوچھتی ہوں کہ مرزا ابوبکر بہادر ہمارے ساتھ آسکیں تو بہت خوب ہو۔ پر وہ شاید طور طریق کے عادی ہیں اور ہم لوگ…‘‘۔
’’قطع کلام معاف اماں جان۔ یہ شاہی طور طریق کی بات نہیں۔ قول اور اصول کی بات ہے۔ میرا گھر قلعہ ہے۔ یہ کوئی نواب زینت محل کی ملکیت تو نہیں۔ میں اسے کیوں چھوڑوں؟‘‘۔
’’صاحب عالم۔ مجھے تو یہاں آپ کے لیے خطرہ معلوم ہوتا ہے‘‘۔ وزیر نے کہا۔ ’’اور یہ نواب مرزا جو راقم الدولہ صاحب سے خبر لائے ہیں وہ تو اور بھی وحشت اثر ہے‘‘۔
’’راقم الدولہ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ایک مجذوب نے ان سے کہا کہ تم شہر میں بیٹھے کیا کر رہے ہو، دنیادار آدمی ہو، جائو رجواڑوں کی سیر کرو‘‘۔ نواب مرزا نے کہا۔
’’اماں نواب مرزا‘‘۔ مرزا ابوبکر نے زچ ہو کر کہا۔ ’’مجھے خبر نہ تھی کہ تم اور راقم الدولہ اس قدر اوہام پرست ہو۔ چھوڑو ان باتوں کو۔ میں یہیں رہوں گا‘‘۔
وزیر اس کے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اسے خبر نہ تھی کہ مرزا ابوبکر کے لیے خطرہ تھا، لیکن قلعے کے باہر سے تھا۔ ملک الموت انہیں اپنے لیے تاک چکا تھا۔ چند مہینوں بعد انگریز کے خلاف جو قہر برپا ہونا تھا اور پھر دہلی کے دفاع کے لیے جو معرکہ گرم ہونا تھا، مرزا ابوبکر اور مرزا مغل بہادر کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا اور بادشاہ کی شکست کے بعد ایک معمولی انگریز فوجی افسر کی گولی کا نشانہ بننا تھا۔ موت نے ان کے پائوں میں زنجیر ڈال دی تھی۔ وہ بھلا قلعہ کس طرح چھوڑ سکتے تھے۔
’’ملکہ دوراں نے اشارہ کر دیا ہے کہ میں کوئی ایسی چیز یہاں سے نہیں لے جا سکتی جو مرحوم صاحب عالم و عالمیان نے مجھے یا میرے بچوں کو عطا کی ہو‘‘۔ وزیر خانم نے کہا۔ ’’نواب مرزا اور خورشید مرزا آپ مزدوروں اور پیادوں کا انتظام کریں، کل ہم اپنا نجی سامان نواب ناظر اور خان سامان بہادر کے آدمیوں کی موجودگی میں بندھوا کر بہل پر بار کرا کر شام سے پہلے پہلے قلعہ چھوڑ دیں گے‘‘۔
’’لیکن جائیں گے کہاں؟‘‘۔ خورشید مرزا نے پوچھا۔
وزیر کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ ’’ابھی تو خانم کے بازار والا گھر ہے ہی… لیکن اب مجھے دلی جائے امان نہیں لگتی… بڑی باجی سے بات کر کے فیصلہ کروں گی‘‘۔
’’میں عرض کروں؟‘‘۔ نواب مرزا نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں، کہو، کیا کوئی اور تجویز ہے؟‘‘۔ مرزا ابوبکر نے فرمایا۔
’’جی، وہ رامپور میں منجھلی خالہ جان ہیں… وہاں ہر طرح کی حفاظت بھی رہے گی‘‘۔
سب ایک لمحے کے لیے چپ ہو گئے۔ دلی چھوڑنے کا خیال سوہان روح لگتا تھا۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔ وزیر نے سوچ کر کہا۔ ’’لیکن منجھلی باجی سے بات تو کرنی ہو گی۔ اور خانم کے بازار والا مکان…‘‘۔
’’اسے آپ نہ چھوڑیں‘‘۔ مرزا ابوبکر نے کہا۔ ’’رکھوالی کا اس کی بندوبست ہو جائے گا‘‘۔
اگلے دن مغرب کے بعد قلعۂ مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا۔ ایک پالکی میں وزیر، ایک بہل پر اس کا اثاث البیت، اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا خان اور خورشید مرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی۔ محافظ خانے والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سر اٹھائے ہوئے نکل گئے۔ ان کے چہرے ہر
طرح کے تاثر سے عاری تھے، لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادر میں لپٹی اور سر کو جھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظر نہ آتا تھا۔