مدینہ کے مسافر

0

منیٰ کے علاقے میں مکہ کے راستے پر حاجیوں کے خیمے چاندنی رات میں دور دور تک دکھائی دے رہے ہیں۔ اونٹوں کی قطاریں بھی چٹانوں کی طرح موجود نظر آتی ہیں۔ ابھی رات کا پہلا پہر ہی گزرا ہے۔ لوگ اپنے اپنے مشاغل میں محو ہیں اور رسول اقدسؐ اپنے معمول کے مطابق ان خیموں میں جا جا کر انہیں خدا جل شانہ کا پیغام سناتے پھر رہے ہیں۔
یہ 11 بعثت (620ئ) کے ایام حج ہیں۔ رسول اکرمؐ آج تبلیغی سلسلے میں عقبہ تک پہنچ گئے ہیں، جہاں چند مدنی حاجی دوسروں سے الگ تھلگ اپنے خیمے میں بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا خیمہ ہے، جس میں چھ نفوس موجود ہیں۔ ان کے اونٹ بھی خیمے سے باہر بیٹھے جگالی کررہے ہیں۔ رسول اقدسؐ ان کے قریب پہنچے اور عادت مبارکہ کے مطابق نہایت شفیقانہ انداز میں ان سے پوچھا:
’’آپ کون لوگ ہیں؟‘‘
’’ہم قبیلہ خزرج کے آدمی ہیں۔‘‘ ایک نے جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا آپ لوگ بیٹھیں گے کہ میں آپ سے کچھ باتیں کروں؟‘‘
خزرجی: ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
آپؐ ان کے پاس بیٹھ گئے۔ انہیں خدا کی وحدانیت کا پیغام سنایا۔ اسلام کی دعوت دی۔ بتوں سے نفرت دلائی۔ نیکی اور پاکیزگی کی تعلیم دے کر گناہوں اور برائیوں سے منع فرمایا۔ قرآن مجید کی تلاوت کر کے ان کے دلوں کو گرمایا اور پھر پوچھا:
’’کیا خدا کی طرف آتے ہو؟ خدا کے سامنے جھکتے ہو؟‘‘
آپؐ کی باتیں سن کر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف نہایت معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ تھوڑی دیر تک خاموشی طاری رہی اور پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ’’بھائیو، جان لو کہ یہ وہی نبی ہیں، جن کی آمد کے ڈراوے یہودی تمہیں دیا کرتے تھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم پر سبقت لے جائیں۔‘‘
آپؐ کی زبانی نبوت، وحی، کتاب اور شریعت وغیرہ کے الفاظ سن کر انہیں اس بات میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا تھا کہ یہودی بڑی بے چینی کے ساتھ جس نبی کی آمد کے منتظر ہیں، جس کے متعلق ان کی کتابوں میں پیش گوئیاں لکھی ہوئی ہیں اور وہ دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’وہ نبی‘‘ جلدی سے آئے تو ان کا عروج شروع ہو اور ہمیں بار بار دھمکاتے رہتے ہیں کہ آنے دو اس نبی کو، پھر ہم ان کے ساتھ مل کر تم کو ایسا ماریں گے جیسا عاد و ارم مارے گئے تھے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپؐ کا تذکرہ سن کر وہ ہم سے پہلے ایمان لے آئیں اور ہم رہ جائیں۔ امن و آشتی کے اس پیغامبر کی بیعت کر کے ہم یقیناً آپس کی تباہ کن لڑائیوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
ان سب کی سوچ کا دھارا ایک ہی سمت میں بہہ رہا تھا۔ اس لئے انہوں نے ایک دوسرے کی طرف ایک بار پھر مستفسرانہ انداز میں دیکھا۔ ان کے ذہن میں مدینہ کی پوری تاریخ گشت کر رہی تھی۔
مدینہ کے دو طاقتور قبیلے اوس اور خزرج یہودیوں کی سازشوں کی وجہ سے آپس میں لڑکر کمزور ہو چکے تھے۔ یہودی انہیں اس طرح برباد اور خستہ وخوار دیکھنا چاہتے تھے، اس لیے سازشوں کا جال پھیلائے رکھتے تھے۔ آپؐ کی ہجرت مدینہ سے چھ سال پیشتران دونوں قبیلوں کے درمیان بغاث کے مقام پر زبردست جنگ ہوئی جو مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس جنگ میں دونوں فریقوں کے نقصان کی وجہ سے سوچنے سمجھنے والے لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ اگر ہم اسی طرح ایک دوسرے کے دشمن رہے تو لڑتے لڑتے ختم ہو جائیں گے۔ اب ان خزرجیوں نے صلح کا علمبردار اور امن وسلامتی کا پیغامبر جب اپنے سامنے موجود پایا تو ان پر گہری سوچ مسلط ہوگئی اور تھوڑی دیر کے بعد شرح صدر کے ساتھ انہوں نے دعوتِ اسلام قبول کرلی۔ آپؐ کی تصدیق کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ خدا جل شانہ نے ان پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیئے اور انہوں نے دین حق کو اپنے سینے میں جذب کر لیا۔ عقبہ کو وہ مقام حاصل ہوگیا، جہاں تاریخ اسلام کا پہلا انقلابی باب رقم کیا گیا تھا۔ان خوش نصیبوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:ابوامامہ اسعدؓ بن زراہ، عوفؓ بن الحارث، رافعؓ بن مالک، قطبہؓ بن عامر بن حدیدہ، عقبہؓ بن عامر بن نالی، جابرؓ بن عبداللہ بن رئاب۔ کلمہ پڑھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا: ’’یا رسول اللہ ہم لوگوں نے اپنی قوم کا ساتھ چھوڑا۔ دوسری کسی قوم میں ہمارے لوگوں کی طرح دشمنی اور خرابی نہ ہوگی۔ شاید کہ آپؐ کی ذات کے ذریعے حق تعالیٰ ان کو پھر جوڑ دے۔ ہم ان کے پاس جائیں گے اور آپؐ کے دین کی طرف ان کو دعوت دیں گے اور ان کے سامنے اپنا وہ تاثر رکھ دیں گے، جو اس دین کے لئے آپؐ کے سامنے ہم نے ظاہر کیا ہے۔ پھر اگر حق تعالیٰ انہیں اس دین پر جمع کردیا تو اس کے بعد آپؐ سے زیادہ قوت رکھنے والا کوئی دوسرا نہ ہوگا۔‘‘مکہ کے لوگوں نے جس دعوت کو خاندانوں میں تفرقہ ڈالنے کا باعث سمجھا تھا، مدینہ کے لوگوں نے اس میں اپنے اتحاد و اتفاق کی بنیاد پہلی نظر میں ہی دیکھ لی تھی۔ حق و صداقت کے ان عاشقوں نے مدینہ پہنچنے پر ہر ایک کو یہ خوشخبری سنائی اور کہا:’’بھائیو، وہ نبی جس کا اقوام عالم کو انتظار تھا، آگیا ہے۔ ہمارے کانوں نے اس کا شیریں کلام سنا جو کانوں کی راہ سے دل میں اتر گیا۔ ہماری آنکھیں اس کی دید سے شاد کام ہوئیں۔ اس نے ہمیں خدائے حی وقیوم سے ملا دیا۔ اب دنیا کی زندگی اور موت ہمارے لئے ہیچ ہے۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More