شہتوت کا پیڑ (حصہ اول)

0

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
کالے کالے شہتوت سے لدا یہ پیڑ دن بھر بچوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا۔ ننھے منے اسکول جانے والے بچے جب اس پیڑ کے نیچے سے گزرتے تو سیاہ شہتوت زمین پر پڑے دیکھ کر خود بخود ان کی نظر اوپر اٹھ جاتی اور پھر سڑک کے کنارے پڑے ہوئے چھوٹے پتھروں اور کنکروں سے اس درخت کی شامت آ جاتی۔ کچھ بچے تو گھروں سے بانس لے کر نکلتے تھے جس کے سرے پر ایک کیل ٹھونک کر آنکڑا سا بنا لیا گیا تھا۔ اس بانس کو درخت کی شہتوت سے لدی ہوئی شاخوں پر مارتے اور بے شمار شہتوت زمین پر آ گرتے۔ وہ درخت میری گیلری کے سامنے ہی تھا، اس لئے اکثر میں بچوں کا یہ تماشا دیکھا کرتا۔ جب شہتوت کے لین دین پر ان بچوں میں لڑائی ہونے لگتی تو میں انہیں ڈانٹ کر بھگا دیتا۔ مجھے بھی اس درخت سے بڑی انسیت تھی، کیونکہ یہ میرے سامنے ہی پلا بڑھا تھا۔ اس کی عمر کم از کم تیس سال تھی۔ انور صاحب نے میرے سامنے ہی اسے ٹھیلے پر پودے بیچنے والے سے خریدا تھا۔ گملے سے نکال کر اسے دیوار کے ساتھ بنی ہوئی کیاری میں لگا لیا تھا۔ ان کا مکان چار سو گز پر بنا ہوا تھا۔ کثیر الاولاد تھے، چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ اب تیس سال کا یہ پیڑ اپنے پورے جوبن پر تھا۔ فروری مارچ کے مہینوں میں اس کا نکھار اور سنگھار دیکھنے کے قابل ہوتا، ٹنڈو منڈ درخت میں نئے سرے سے کونپلیں پھوٹتیں۔ ہرے ہرے پتے نکلتے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتنا سرسبز اور گھنا ہو جاتا کہ اس کے نیچے گھنے سائے میں راہ چلتے تھکے مسافر بیٹھنے لگتے۔ کوئل اپنی خوبصورت آواز ’’کوہو کوہو … پی ہو‘‘ پکارتی۔ ٹیٹری، طوطے، چڑیاں، کوے، رنگ برنگے پرندے، اس کے اوپر بسیرا کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ مجھے بھی ان چڑیوں اور پرندوں سے بڑی انسیت تھی۔ میں نے بھی اپنی گیلری کے ایک حصے میں چڑیوں کیلئے باجرے اور پانی کا انتظام کر رکھا تھا۔ صبح جب میں گیلری میں ناشتہ کرتا تو چند پالتو قسم کے کوے روزانہ میری ڈبل روٹی میں حصہ دار بن جاتے تھے، مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا تھا۔ یہ بن بلائے مہمان میری دلبستگی اور میرے پوتا، پوتیوں کی تفریح میں اضافے کا باعث بنتے تھے۔
میں ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر تھا، میرے پانچ بیٹے تھے جو سب شادی شدہ تھے اور میرے ساتھ ہی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ میں پولیس کے محکمے میں تھا، اس لئے کل وقتی سرکاری ڈیوٹی پر رہتا تھا۔
میرے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مکمل طور پر میری بیوی نادیہ کی محنت تھی۔ دوران ملازمت میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر اتنی توجہ نہ دے سکا جتنا ان کا حق تھا، مگر نادیہ نے ان کی تعلیم پر پوری توجہ دی۔ میرا تعلق ایک دیانت دار مذہبی گھرانے سے تھا، اس لئے پولیس جیسے محکمے میں ہوتے ہوئے میں نے رشوت کا حرام پیسہ کبھی گھر میں نہیں آنے دیا۔ میں پینتیس سال کی ملازمت کے بعد ایک دیانت دار پولیس آفیسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوا۔ میری بیوی نے ہمیشہ بچوں کو خود پڑھایا۔ اپنے بچوں کے ساتھ وہ محلے کے بچوں کو بھی ٹیوشن پڑھاتی، دوسرے بچوں کے شوق میں اپنے بچے بھی دل لگا کر پڑھتے۔ اس طرح ان کا تعلیمی ریکارڈ ہمیشہ بہترین رہا اور ملازمت کیلئے بھی انہوں نے بغیر کسی سفارش کے اپنے لئے جگہ بنائی۔
انور صاحب نے جب یہ پیڑ لگایا تھا، اس وقت ان کے سب بچے بہت چھوٹے تھے، آپس میں چھیڑا چھاڑی ہوتی رہتی تھی۔ بچوں کے شور و غل سے رونق رہتی تھی، انور صاحب خود بہت دھیمے مزاج کے سلجھے ہوئے انسان تھے۔ ان کے برعکس ان کی بیوی سخت مزاج کی چڑچڑی خاتون تھیں، درخت کی اٹھان کے ساتھ ساتھ سب بچے بھی بڑے ہوتے چلے گئے اور سب بچے ایک کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا، ناروے اور امریکہ چلے گئے، انور صاحب شہتوت کے پیڑ کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔
شہتوت کی پھیلی ہوئی شاخیں ہوا کی تندی سے ادھر ادھر سرسراتی، ایک دوسرے سے ٹکراتی، جھولتی بہت دلفریب لگتی تھیں۔ اس کے نازک نازک پھول شاخوں سے جدا ہو کر کبھی ہوا کے ہاتھوں میں جھولتے تو کبھی دیوار سے ٹکرا کر موتیوں کی طرح بکھر جاتے۔ ہوا کا جھونکا سرسراتا ہوا سبز پتوں اور سرخ تازہ شہتوتوں کو جھنجھوڑ کر گزر جاتا تو وہ فوراً زمین پر بکھر جاتے اور زمین پر اس کا بچھونا سا بچھ جاتا۔
انور صاحب ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ان کے بچوں نے کارڈ بھیج کر ان کو تسلی دی کہ اب آپ جس بچے کے پاس چاہیں، آرام سے آجا سکتے ہیں، پہلے تو نوکری کی پابندی تھی۔ انور صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بیوی کے مزاج میں اچھی خاصی تبدیلی آ چکی تھی۔ چڑچڑاپن اور مزاج کی سختی کم ہو گئی تھی۔ انور صاحب کو چھوٹے بیٹے کیلئے لڑکی کی تلاش تھی، وہ ایسی بہو چاہتے تھے، جو ساس سسر کی خدمت بھی کر سکے۔ بہت تگ و دو کے بعد ایک لڑکی ان کے بیٹے کو پسند آ گئی، جو بعد میں ساس سسر کیلئے خدا کی طرف سے بڑی آزمائش بن گئی۔ نئی دلہن صبح سے شام تک ٹی وی، موبائل اور انٹرنیٹ میں مصروف رہتی، یہ تو انور صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ شادی بھی انٹرنیٹ پر دوستی کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ وہ انڈین ڈراموں کی رسیا اور انہی کے بہوئوں کی طرح سازشی ذہن رکھتی تھی۔ کم کم ساڑھی، کشش بالیاں اس کی پسند تھیں۔ ساس کبھی کچھ کہتی تو وہ اٹلا کر کہتی: ماتا جی، آپ بھی وہ ڈرامہ دیکھا کریں۔ ’’ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More