ربیع الاول کا مبارک مہینہ مسلمانان عالم ہی کو نہیں، ساری بنی نوع انسان کو ہر سال یاد دلاتا ہے کہ اگر انہیں ایک عظیم مقصد کے لیے نہایت محدود ذرائع کے ساتھ بے مثال نتیجہ حاصل کرنا ہو تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے، اندھیرے میں تیر چلانے اور ٹامک ٹویئے مارنے کے بجائے نبی اکرم حضرت محمدؐ کے اسوۂ حسنہ کو اختیار کرے۔ اس ماہ مقدس میں خاتم النبیینؐ دنیا میں تشریف لائے جنہیں رب کائنات نے رحمۃ للعالمین کا عظیم لقب عطا فرمایا۔ حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ کو اللہ کریم نے ان دو لفظوں سے اجاگر کر کے رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں امن و سلامتی، رحمت، برکت اور تمام جہانوں کی نعمتیں سمیٹنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے رجوع کر کے فیضیاب ہونا چاہئے۔ نبی پاکؐ کو ہماری تعریف و توصیف اور لفظی مدح و ثنا کی ضرورت ہے نہ حاجت۔ ہم اپنے ٹوٹے پھوٹے، بے ربط اور کمزور انداز بیان سے ان کی شان و عظمت کو پوری طرح بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جو کچھ اپنے ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں، وہ کلام الٰہی کے حکم کی تعمیل میں اور خود اپنی سعادت میں اضافے کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے شب و روز نبی کریمؐ کے لیے درود و سلام کا تحفہ بھیجتے ہیں۔ اس کے سامنے ہمارے درود و سلام کی کیا اہمیت، لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو۔ لیکن یاد رہے کہ سرور کائناتؐ کی بعثت اور ان پر قرآن کا نزول صرف تذکرہ و بیان اور اوراد و وظائف کے لیے نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ شاہراہ حیات پر عمل کے لیے ایک ایسا بے مثال نمونہ ہے، جس کو حرز جاں بنا کر دنیا آج بھی فلاح و صلاح پا سکتی ہے۔ نبی اکرمؐ کا یہ زندہ معجزہ ہے جو قیامت تک قائم و دائم رہے گا کہ آپ پر نازل ہونے والے قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور آپؐ کی سیرت طیبہ کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے۔ یہ مرتبہ و مقام آپؐ سے پہلے آنے والے انبیاء و رسلؑ میں سے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ان پر نازل ہونے والی شریعتیں اور احکام ایک مخصوص زمانے اور محدود علاقوں کے لیے تھے، جبکہ نبی آخر الزماںؐ کے ذریعے ہدایت کا جو پیغام اترا وہ قیامت تک انسانوں کے لیے قابل تقلید و عمل ہے۔ اس میں تمام عالم انسانیت کے لیے دین و دنیا، عبادات و اخلاق، سیاست و معیشت اور معاشرت کے لیے ابدی اصول موجود ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں کے علاوہ تمام غیر مسلم قومیں بھی امن و سکون اور ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہیں۔ حضور اکرمؐ نے نبوت کے بعد اپنی تیئس سال کی مختصر دنیوی زندگی میں نہایت پاکیزہ و مہذب معاشرہ قائم کر کے اس کی کرنیں دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دی تھیں۔
خاتم النبیینؐ نے مرکزیت اور وحدت سے ناآشنا بری طرح بگڑے ہوئے عربوں کے معاشرے کو اپنے پاک اقوال اور بے مثال سیرت کے ذریعے اتنا منظم و متحد اور مرکوز کر دیا کہ وہ ایک قلیل مدت میں ساری دنیا پر چھا گئے۔ رسول اللہؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت مدینہ منورہ کی دس سالہ مدت کے دوران ریاست مدینہ کے علاوہ کم و بیش نو لاکھ ستائیس ہزار مربع میل کا رقبہ اسلامی مملکت کے ماتحت آچکا تھا، جو پاکستان کے موجودہ رقبے سے تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میں مفتوحہ علاقوں کا رقبہ تین ہزار مربع میل سے بھی کم تھا۔ گویا باقی دنیا نبی کریمؐ کی ابدی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی تھی۔ عالمی تاریخ کے چھوٹے بڑے تمام انقلابات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں برپا کرنے میں کہیں ہزاروں اور کہیں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی گئیں، جبکہ آپؐ کے ہاتھوں دنیا میں جو انقلاب آیا، اس کی وسعت و عظمت کے باوجود مسلم شہدا اور مخالفین کی ہلاکتوں کی کل تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی۔ جناب رسالت مآبؐ کا برپا کردہ انقلاب ہمہ گیر تھا۔ اس نے زندگی کے کسی ایک یا چند شعبوں کو متاثر نہیں کیا، بلکہ قدم قدم پر اپنے نقوش قائم و مرتسم کئے۔ آپؐ نے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تمام قومی، نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کا خاتمہ کر کے محض تقویٰ کو انسانیت کا اعلیٰ ترین معیار قرار دیا۔ آپؐ نے انفرادی اور اجتماع زندگی کو منظم کرنے کے لیے جو اصول قائم کئے، وہ کسی لچک کے بغیر اور اٹل تھے۔ ان پر آپؐ نے دوست، دشمن کسی سے سمجھوتا نہیں کیا۔ نبی پاکؐ نے ایک عام آدمی کے جھوٹ کے مقابلے میں کسی حکمران یا صاحب اقتدار شخص کے جھوٹ کو زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔
آج ہم روایتی تزک و احتشام کے ساتھ ایک بار پھر نبی اکرمؐ کا جشن ولادت منا رہے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر عام ناخواندہ یا نیم خواندہ مسلمان تو کیا، بڑے بڑے علما و فضلا، دانشوروں، سیاست دانوں اور حکمرانوں کو احساس نہیں کہ نبی پاکؐ کے فضائل اور درود و سلام کی محفلوں میں اپنی تصاویر پر مبنی بڑے بڑے پوسٹروں سے زیادہ حضورؐ کی سیرت پاک کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں نافذ و رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے گریز ہی کا نتیجہ ہے کہ حج و عمرہ میں لاکھوں مسلمانوں کے اجتماع اور بڑے بڑے مذہبی و تبلیغی جلسے جلوسوں کا بھی عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اکثر علما کا یہ حال ہے کہ وہ ذاتی نام و نمود اور مال و مناصب کی دوڑ میں دنیا کے حریص نظر آتے ہیں۔ باقی رہا ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کا طبقہ تو اس کے قول و فعل کا تضاد ہر قدم پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک پاکستان پر اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ اسے مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے دعوے دار لوگ کسی اصول پر قائم رہنے کے بجائے بات بات پر جھوٹ بولنا اور اپنے قول و قرار سے پھر جانا ’’یوٹرن‘‘ کے نام پر ضروری اور جائز قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کا بھی ایک عام مسلمان آج بھی نبی کریمؐ کی عقیدت و محبت سے سرشار ہو کر ان جذبات کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اے نام محمد صل علیٰ ماہرؔ کے لیے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا، آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے
٭٭٭٭٭
Prev Post