’’سنگاپور سے ملائیشیا کے شہر جوہر بارو لانے والا شخص مجھے آدھی رات کو سڑک کے کنارے اتار کر اور میرے ہاتھ پر دس رنگٹ کا نوٹ رکھ کر خود واپس روانہ ہوگیا‘‘۔ علی نے بتایا۔ ’’تاریخ یاد نہیں لیکن مئی کا مہینہ اور 1994ء کا سال تھا۔ ان دنوں میں ملائیشیا کا رنگٹ ہمارے بارہ روپے کے برابر تھا۔ میں کوالالمپور جانا چاہتا تھا، جہاں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر ہورہی تھی۔ جہاں کام کیلئے کئی ہنر مندوں کے علاوہ مجھ جیسے بے ہنر لوگوں کو بھی مزدوری مل سکتی تھی۔ میں فی الحال کسی روزگار سے لگ کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’میں نے جوہر بارو کے بس اسٹاپ سے کوالالمپور جانے والی بس کا کرایہ معلوم کیا، لیکن میرے پاس موجود دس رنگٹ اس قدر کم رقم تھی کہ مجھے اس سے کسی نان اے سی بس کا ٹکٹ بھی نہیں مل سکا۔ اب میں بس اسٹاپ کے قریب واقع پیٹرول پمپ میں رکنے والی کاروں میں سوار لوگوں کا جائزہ لینے لگا، اس خیال سے کہ شاید کوئی مجھے کوالالمپور تک لفٹ دیدے۔ ایک دو کے انکار کے بعد ایک شخص مجھے اپنی کار میں بٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں ٹورسٹ ہوں، میرے ساتھی مجھ سے بچھڑ گئے ہیں۔ وہ کوالالمپور میں میرا انتظار کررہے ہیں۔ اس نے سرسری سے انداز میں میرا پاسپورٹ دیکھا اور گاڑی میں پیٹرول بھروا کر اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کو پچھلی سیٹ پر بٹھایا اور مجھے وہاں بٹھا دیا۔ وہ فیملی اپنے عزیزوں سے ملنے جوہر بارو آئی تھی اور اب وہ لوگ واپس اپوح جا رہے تھے، انہیں کوالالمپور سے گزر کر آگے جانا تھا۔‘‘
’’ہم جوہر بارو سے روانہ ہوکر چھوٹے بڑے شہروں: آئر حطام، موئر، جاسین، ملاکا وغیرہ سے ہوتے ہوئے سریمبان میں کچھ دیر کیلئے رکے۔ انہوں نے خود بھی کھانا کھایا اور اصرار کرکے مجھے بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا۔ کوالالمپور پہنچ کر انہوں نے مجھے اس جگہ پر اتارا، جہاں پیٹرو ماس کے جڑواں ٹاورز تعمیر ہو رہے تھے۔ اب تک رات کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ صبح ہونے بھی دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے۔ کنسٹرکشن والے حصے میں کئی مزدور زمین پر تختے اور گتے بچھا کر سو رہے تھے۔ وہ قریبی ملک انڈونیشیا اور فلپائن کے غریب محنت کش معلوم ہوتے تھے۔ مجھے بھی ایک ردی اخبار مل گیا، جسے بچھا کر میں بھی کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹ گیا۔ میں کچھ دیر کیلئے گاڑی میں نیند لے چکا تھا اور یہاں بھی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی نیند نے مجھے کافی حد تک ہشاش بشاش کر دیا۔ صبح کے وقت جیسے ہی دیگر مزدوروں نے ٹھیلے والوں سے ’’ناسی لیماک‘‘ خرید کر کھایا، اسی طرح میں نے بھی اپنے دس رنگٹ سے ڈیڑھ رنگٹ خرچ کرکے ناریل اور دودھ میں پکے ہوئے ملئی چاول ’’ناسی لیماک‘‘ سے ناشتہ کیا۔
بلڈنگ میں کام شروع ہونے کے بعد میں نے اِدھر اُدھر کسی بھی کام حاصل کرنے کی کوشش کی اور آخرکار کامیاب ہوگیا۔ نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ خدا کے فضل سے مجھے صاف ستھری نوکری مل گئی۔ بلڈنگ کے ایک حصے میں جاری کام کیلئے نٹ بولٹ اور پائپ وغیرہ کا اسٹور تھا۔ جہاں سے اس کمپنی کے کاریگروں اور کارپینٹرز کو سامان سپلائی کیا جاتا تھا۔ پڑھے لکھے ہونے کے سبب مجھے اس کمپنی کے انچارج نے اسٹور میں کلرک کے طور پر رکھا۔ میرا کام سامان کا اندراج کرنا تھا کہ کس نے لیا اور کس جگہ استعمال ہوا۔ جو چیز ختم ہونے لگتی، اس بارے میں متعلقہ افسر کو بتا کر وہ چیز منگوالی جاتی تھی۔ اس نوکری میں میرا واسطہ مزدوروں اور بے ہنر لوگوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز، ٹیکنیشن، مکینکس اور دوسرے لوگوں سے پڑا۔ کچھ دن فٹ پاتھ پر سونے کے بعد مجھے اس اسٹور کے ایک حصے میں سونے کی اجازت مل گئی۔ کمپنی والے بھی مجھ سے خوش تھے، کیونکہ میں ہر وقت موجود رہتا تھا اور انہیں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی تھی۔
دنیا کی بلند ترین عمارت (جڑواں ٹاورز) کا کام اب آخری مراحل میں تھا۔ مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ چھ سات ماہ بعد میری یہ ملازمت ختم ہوجائے گی۔ بہرحال میں بلڈنگ کی تعمیر کے دوران مسلسل ایک سال تک روزگار سے لگا رہا اور میں نے اس حد تک بچت کرلی تھی کہ آئندہ ایک سال بغیر نوکری کے سادگی کے ساتھ
گزارہ کر سکتا تھا۔
’’پھر اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ علی خاموش ہوا تو میں نے پوچھا۔
’’اس کے بعد میں نے سائبر کیفے کھولا‘‘۔
’’آپ کو اس بزنس کا خیال کیسے آیا؟‘‘
’’دراصل ایسا ہوا کہ پیٹروناس ٹاور کی تکمیل میں دو تین ماہ باقی رہ گئے تو میرے ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والی ایک ملئی انجینئر لڑکی میرے پاس آئی‘‘۔ علی نے اپنی کہانی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’اس نے مجھ سے کہا کہ دو تین ماہ کے بعد ہم سب کو اس فارن کمپنی کی جانب سے ملازمت ختم ہونے کا نوٹس ملے گا۔ کیونکہ عمارت کی تکمیل کے بعد گوروں کی یہ کمپنی وائنڈاپ کرکے اپنے ملک چلی جائے گی… اس کے بعد آپ نے کیا سوچا ہے؟‘‘
’’میں نے اسے بتایا کہ فی الحال میرے پاس آئندہ کے لئے کوئی پلان نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ کمپیوٹر کی ماہر ہے اور آج کل دنیا میں سائبر کیفے کا رواج عام ہورہا ہے۔ وہ مجھے ایماندار اور محنتی سمجھتی ہے، اس نے پیشکش کی کہ اگر میں چاہوں تو اس کے اس بزنس میں پارٹنر بن سکتا ہوں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ لڑکی ہونے کے سبب اس کیلئے ہر معاملات کو فیس کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے اس کی بات پسند آئی۔ لہٰذا ہم نے ملازمت کے ختم ہونے سے پہلے ہی سائبر کیفے کھولنے کے لئے لوکیشن کا انتخاب کرلیا۔ وہ کلانگ لاما کا علاقہ تھا جہاں ان ایام میں ڈیولپمنٹ شروع ہورہی تھی۔ اردگرد کئی آئی ٹی اسکول اور ادارے کھل رہے تھے۔ وہاں ہم نے ایک دکان کرائے پر لی اور اس میں کمپیوٹر وغیرہ فٹ کردیئے۔ جیسے ہی ہمارے پیٹروناس والی ملازمت ختم ہوئی، ہم نے وہ کیفے سنبھال لیا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post