عباس ثاقب
الکھ سنگھ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سن کر میرے دماغ میں دھماکا سا ہوا۔ اس گھٹیا شخص کے حوالے سے دل میں سخت مخاصمت کے جذبات ہونے کے باوجود یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ میں چند لمحوں کے لیے سن ہوکر رہ گیا۔ قریب تھا کہ میں اپنی اس ابتر ذہنی کیفیت کے نتیجے میں الکھ سنگھ کی نظروں میں آجاتا، لیکن میں نے اپنے آپ کو بروقت سنبھال لیا اور اس کے آگے بڑھنے کے زاویئے کے ساتھ اپنی جگہ بدل لی۔
الکھ سنگھ کا آرڈر سن کر سائس نے عاجزی سے کہا کہ بس دو منٹ میں گھوڑا سواری کے لیے تیار ہو جائے گا۔ الکھ سنگھ نے بدستور حاکمانہ لہجے میں کہا ’’ٹھیک ہے، لیکن دو منٹ سے زیادہ نہیں لگنے چاہئیں، سمجھے؟‘‘۔
اس کا حکم سن کر سائس نے گھوڑے کو کھولی سے ہٹاکر سائبان کے ستون سے باندھا اور گھوڑے کو جھٹ پٹ ساز و سامان سے آراستہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی الکھ سنگھ نے اگلا حکم صادر کیا۔ ’’گھوڑوں کی خوراک والی کوٹھری کھولو‘‘۔
سائیس نے اس کی بات سن کر حیرانی سے کہا۔ ’’خیریت تو ہے سرکار؟ کیا گھوڑے کے لیے خوراک ساتھ لے جانی ہے؟‘‘۔
الکھ سنگھ نے برہم لہجے میں کہا۔ ’’سوال جواب نہ کرو، جوکہا ہے وہ کرو‘‘۔
ڈانٹ کھانے کے بعد سائس نے سامنے موجود نیم پختہ کوٹھری کا دروازہ کھولنے میں دیر نہیں لگائی۔ میرے دیکھتے دیکھتے ہی الکھ سنگھ کوٹھری میں داخل ہو گیا۔ چند لمحوں بعد وہ دروازے سے برآمد ہوا تو اس نے ایک لمبوترا سا بنڈل اٹھا رکھا تھا۔ میں نے چونک کر بغور جائزہ لیا۔ تین فٹ کے قریب لمبائی والے نامعلوم سامان کا وہ بنڈل دراصل ایک موٹے کمبل پر مضبوطی سے رسی لپیٹ کر بنایا گیا تھا۔ اس بنڈل کا وزن زیادہ نہیں تھا۔ کیونکہ منحنی سے الکھ سنگھ نے اسے ایک ہاتھ میں باآسانی اٹھا رکھا تھا۔
سائس کی حیرانی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ گھوڑے کی خوراک والی کوٹھری اس کی عملداری میں ہونے کے باوجود وہ اس بنڈل کی موجودگی سے لاعلم تھا۔ اس کی حیرت نظر انداز کرتے ہوئے الکھ سنگھ نے حکم صادر کیا کہ یہ ’’سامان‘‘ کاٹھی کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ اس کام میں نیرج نے بھی سائس کی مدد کی۔ اس کے بعد الکھ سنگھ نے رخصت ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ اس کے بڑے پھاٹک سے نکلنے تک میری نظریں اسی پر جمی رہی۔
اس دوران میں میرے دماغ میں عجیب ہلچل مچی رہی تھی۔ ویسے تو اس گھوڑے کی الکھ سنگھ کی تحویل میں موجودگی ہی میرے دماغ میں شکوک و شبہات کا جنگل اگانے کے لیے کافی تھی، لیکن اس عجیب و غریب بنڈل نے تو میرے لیے غور و فکر کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ مجھے لگا کہ میں اس الجھے ہوئے معاملے کی گتھی پوری طرح کھولنے کے قریب پہنچ گیا ہوں۔
زنجیر کے جوڑ بظاہر آپس میں پوری طرح بیٹھ رہے تھے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ الکھ سنگھ جرائم پیشہ ذہن یا پس منظر کا حامل تھا یا نہیں، لیکن خود امر دیپ اس کی بدنیتی اور دولت کی ہوس سے نالاں تھا۔ اسے بھاری رقم کی شدید ضرورت بھی تھی۔ سب سے قابل توجہ بات یہ تھی کہ وہ امر دیپ کی پٹیالے روانگی اور وہاں سے بھاری رقم وصول کرکے واپس لوٹنے کی معلومات سے پوری طرح واقف تھا۔ اس جیسے مالی مشکلات میں بری طرح پھنسے ہوئے شخص کے لیے تو وہ رقم اتنی بڑی تھی کہ وہ اس کا دوسرا تیسرا حصہ وصول کر کے بھی نہال ہوجاتا، خصوصاً جب اسے براہ راست کوئی خطرہ مول لینے کی ضرورت بھی نہ ہو۔
میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ الکھ سنگھ پیشہ ور ڈاکو ہو یا نہ ہو، ڈاکے اور اغوا برائے تاوان کی اس واردات میں اس کا مرکزی کردار اب واضح ہو چکا ہے۔ سارا منصوبہ اسی کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ ڈاکوؤں کے مسکن یعنی ڈاک بنگلے میں خود کو امر دیپ کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے پس پردہ بھی یہی راز ہے۔ وہ کامیاب واردات کر کے واپس لوٹنے والے دونوں ڈاکوؤں کا وہاں منتظر ہوگا۔ اگر اس کا اندازہ درست ثابت ہوتا یعنی ڈاکوؤں کی جوڑی امر دیپ سے تیس چالیس ہزار روپے لوٹ کر ڈاک بنگلے واپس پہنچتی تو یہ اپنے حصے کا مال سمیٹ کر چپ چاپ غائب ہوجاتا اور اس واردات میں اس کی بطور منصوبہ ساز شرکت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔
لیکن امر دیپ کے قبضے سے برائے نام مال برآمد ہونے کی غیر متوقع صورتِ حال نے سارا معاملہ بدل کر رکھ دیا اور دونوں ڈاکو بھائی ہنگامی طور پر اغوا کے ذریعے اپنی مطلوبہ رقم وصول کرنے کی متبادل حکمتِ عملی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چونکہ دونوں ڈاکو بظاہر کسی بھی مشکل یا رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر امر دیپ اور مانو کو اس خطرناک جنگل میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے، چنانچہ الکھ سنگھ بھی شاید اس حفظ ماتقدم کے ساتھ ان کے بدلے ہوئے منصوبے میں شامل ہوگیا ہوگا کہ وہ کسی بھی مرحلے پر امر دیپ یا کسی بھی واقف شخص کے سامنے نہیں آئے گا۔
اندازہ ہی لگایا جا سکتا تھا کہ امر دیپ کو محفوظ انداز میں قید کرواکر الکھ سنگھ یہ چتکبرا گھوڑا لے کر وہاں سے چلا آیا ہوگا، جہاں پہنچ کر میں نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا تھا۔ آج کسی وقت یہ شاید حالات جاننے کے لیے ڈاک بنگلے گیا ہوگا تو وہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ملا ہوگا۔ اسے وہ سب دیکھ کر دہشت اور ملال کا احساس تو ہوا ہوگا، لیکن اس نے شکر بھی ادا کیا ہوگا کہ وہ خود بچ نکلا ہے اور بظاہر ہر قسم کے شک و شبہے سے بھی باہر ہے۔ ایسے میں اس نے ہاتھ لگنے والا مالِ غنیمت سمیٹ کر وہاں سے رفو چکر ہونے میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔
میں قیاس ہی کرسکتا تھا کہ اس مالِ غنیمت میںکیا کیا اس کے ہاتھ لگا ہوگا۔ ایک تو یہ گھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ شاید دونوں مردہ ڈاکوؤں کے قبضے میں موجود شاٹ گن اور ریوالور۔ اس کمبل میں شاید وہی ہتھیار لپیٹے گئے ہوں گے۔ امر دیپ سے چھینے گئے چند ہزار روپے شاید یہ تینوں پہلے ہی آپس میں بانٹ چکے ہوں گے۔ لیکن اس غلیظ انسان سے کوئی بعید نہیں کہ اس نے دونوں کی لاشوں کی تلاشی لے کر ان کے حصے میں آئی ہوئی رقم بھی اپنے قبضے میں لے لی ہو۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post