ام المومنین سیدہ صفیہؓ بنت حیی بن اخطب بہت بڑے باپ کی بیٹی اور اونچے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ غزوئہ خیبر کے دوران جب قلعہ قموص فتح ہوا تو یہ بھی قیدیوں میں شامل تھیں۔ پہلے یہ سیدنا دحیہ کلبیؓ کو عطا ہوئیں۔
ایک شخص رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کی کہ آپ نے بنو نضیر کے سردار کی بیٹی دحیہؓ کو دیدی ہے، حالانکہ وہ آپ کے سوا کسی کے لائق نہیں، چنانچہ دحیہ کلبیؓ کو ایک اور لونڈی دیدی گئی۔ آپؐ نے سیدہ کو آزاد کر دیا اور ان کی آزادی کو حق مہر قرار دیکر ان سے نکاح کر لیا۔ اس سے پہلے سیدہ صفیہؓ مسلمان ہو چکی تھیں۔
رسول اکرمؐ نے سیدہ صفیہؓ کی آنکھ پر نیل پڑا دیکھا تو دریافت فرمایا: ’’صفیہ! یہ نیل کا نشان کیسا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگیں: ’’میں اپنے سابقہ یہودی شوہر ابن الحقیق کی گود میں سر رکھے سوئی ہوئی تھی کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میری گود میں چاند اترا ہے۔ میں نے اپنے شوہر کو خواب سنایا تو اس نے میری چہرے پر زور سے تھپڑ مارتے ہوئے کہا: تو یثرب کے حکمران سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ یہ اسی تھپڑ کا نشان ہے۔‘‘
آپ نے یہودی سردار کی بد اخلاقی ملاخطہ کر لی کہ ایک خواب کی وجہ سے تھپڑ مار دیا۔ مگر حق تعالیٰ نے سیدہ صفیہؓ کا خواب سچا کر دیا اور ان کا نکاح رسول اکرمؐ سے ہو گیا۔ انہیں جہنم سے چھٹکارا مل گیا اور مومنوں کی ماں بننے کا اعزاز حاصل ہوا، نیز جنت میں بھی خاتم الانبیاء المرسلینؐ کی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف مل گیا۔
آیئے اب ذرا اپنے پیارے رسولؐ کے اخلاق کی ایک جھلک ملاخطہ کیجیے: آپؐ خیبر سے مدینہ طیبہ واپس آتے ہوئے سیدہ صفیہؓ کے اونٹ پر ہی سوار تھے۔ آپؐ نے ان کی اس طرح عزت افزائی کی کہ جب سیّدہؓ اونٹ پر سواری کا ارادہ کرتیں تو آپؐ اونٹ کے پاس جاتے، اپنا گھٹنا آگے کر دیتے تاکہ صفیہؓ اپنا قدم سید الانبیائؐ کے مبارک زانو پر رکھ کر سوار ہوں۔
ادھر سیدہ صفیہؓ کا حسن ادب دیکھئے کہ وہ رسول اکرمؐ کا اس قدر احترام کرتی تھیں کہ اپنا پاؤں کبھی بھی اس مبارک گھٹنے پر نہ رکھتیں، بلکہ اپنا گھٹنا اس پر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔
اب آیئے دیکھئے سیدہ صفیہؓ، رسول اکرمؐ کے اخلاق کے بارے میں کیا گواہی دیتی ہیں۔ سیدہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اقدسؐ سے بہتر اخلاق والا انسان نہیں دیکھا۔ میں خیبر میں رات کو ان کی اونٹنی پر سوار تھی۔ مجھے اونگھ آتی تو میرا سر کجاوے سے لگ جاتا۔ آپؐ مجھے ہاتھ سے جگاتے ہوئے فرماتے:
ترجمہ: ’’اری ذرا سنبھل کر، اے حیی کی بیٹی صفیہ! ذرا دھیان سے۔‘‘
ایک مرتبہ سیدہ عائشہؓ اور سیدہ حفصہؓ نے یہ بات کہہ دی کہ ہم رسول اکرمؐ کے ہاں صفیہ سے زیادہ قدر و منزلت والی ہیں کہ ہم آپؐ کی زوجات بھی ہیں اور آپؐ کی چچا زاد بھی ہیں۔ سیدہ صفیہؓ نے یہ بات آپؐ کی خدمت میں عرض کردی تو آپؐ نے اس طرح ان کی دل جوئی فرمائی کہ صفیہ تم نے ان سے اس طرح کیوں نہ کہا:
ترجمہ: ’’تم مجھ سے کیسے بہتر ہو سکتی ہو، جبکہ میرے شوہر محمدؐ، میرے باپ ہارونؑ اور میرے چچا موسیٰؑ ہیں۔‘‘
(جامع الترمذی، حدیث: 3892، والمستدرک للحاکم : 29/4)
یہ رسول اکرمؐ کا اعلیٰ اخلاق تھا کہ آپؐ نے اپنی اہلیہ کو ان الفاظ کے ساتھ تسلی دی۔ ان کو بتایا کہ ان کی اہمیت کوئی کم نہیں ہے۔ سیدہ صفیہؓ، آپؐ کے اخلاق سے بے حد متاثر ہوئیں۔ اسی چیز کا نتیجہ تھا کہ وہ آپؐ کے ساتھ بے حد محبت کرتی تھیں۔ وہ آپؐ کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اور محبوب تر سمجھتی تھیں۔ اگر کبھی آپؐ بیمار پڑتے تو وہ آرزو کرتیں کہ آپؐ صحت و عافیت میں رہیں اور اس کے بدلے میں یہ مرض انہیں لاحق ہو جائے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post