محدثین کے حیران کن واقعات

0

امام ابن شہاب زہریؒ کا حافظہ کمال کا تھا۔ حفاظ قرآن کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے نہ ہوتیں تو ان حضرات کے حیران کن واقعات کا شاید لوگ انکار کرتے، مگر آج جس کا جی چاہے چار سو حدیثوں کے مجموعے سے بڑا یعنی پورا قرآن پاک کسی حافظ سے سن سکتا ہے۔
ابن راہویہؒ کی قوت یاد داشت:
امام بخاریؒ کے استاد ابن راہویہؒ کے تذکرے میں حفظ اور یادداشت ہی کے سلسلے میں لوگ اس قصے کا ذکر کرتے ہیں کہ مشہور خراسانی امیر ابن طاہر کے دربار میں ابن راہویہؒ کی ایک دوسرے عالم سے بعض مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کسی کتاب کی عبارت کے متعلق دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس پر ابن راہویہؒ نے امیر ابن طاہر سے کہا کہ اپنے کتب خانہ سے فلاں کتاب منگوایئے۔ کتاب منگوائی گئی (ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس کے بعد لکھا ہے کہ) امیر کو خطاب کر کے ابن راہویہؒ نے کہا کہ:
’’کتاب کے گیارہ ورق شمار کر کے پلٹئے اور گن لیجئے، ساتویں سطر میں وہی ملے گا، جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘
دیکھا گیا جو کچھ ابن راہویہ کہہ رہے تھے، وہی کتاب میں نکلی۔ کہتے ہیں کہ امیر ابن طاہر نے ابن راہویہ کو یہ خطاب کر کے کہا کہ:
’’ یہ چیز تو مجھے معلوم ہی تھی کہ مسائل آپ کو خوب یاد ہیں، لیکن آپ کی قوت یاد داشت اور حفظ کے اس مشاہدے نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن راہویہؒ کی قوت یاد داشت اور چیزوں کا اتنے وضوح کے ساتھ ان کے دماغ میں محفوظ رہنا حیرت انگیز ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ کیا یہ بھی واقعہ نہیں ہے کہ ہر اسلامی شہر اور قصبہ میں قرآن کے ایسے حافظ آج بھی باآسانی آپ کو مل سکتے ہیں جو ٹھیک ابن راہویہؒ کی طرح آپ کو پارہ، سورہ اور رکوع کے حوالے سے ہر اس آیت کا پتہ دے سکتے ہیں جو ان سے پوچھی جائے اور سچ تو یہ ہے کہ خود حفظ حدیث کے متعلق بھی ابن راہویہؒ کی مثال واحد مثال نہیں ہے۔
ابوزرعہؒ کی قوت یاد داشت:
حافظ ابو زرعہ الرازیؒ جو حدیث و رجال کے مشہور ائمہ میں سے ہیں، ابن ابی حاتمؒ نے ان کا یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ابن وارہ جن کا اصل نام محمد بن مسلم ہے اور فضل بن العباس جو فضلک الصائغ کے نام سے مشہور تھے۔ دونوں حافظ ابو زرعہ کے پاس حاضر ہوئے۔ دونوں میں کسی مسئلے پر بحث ہونے لگی۔ ابن وارہ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں ایک حدیث پیش کی۔ فضلک نے کہا کہ حدیث کے الفاظ یہ نہیں ہیں۔
ابن وارہ نے پوچھا کہ پھر اس حدیث کے صحیح الفاظ کیا ہیں؟ فضلک کے نزدیک حدیث کے جو الفاظ تھے ان کو دہرا دیا۔ دونوں کی گفتگو ابو زرعہؒ خاموشی کے ساتھ سن رہے تھے۔ آخر ابن وارہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے کہ آپ فرمایئے واقعی حدیث کے الفاظ کیا ہیں؟
انہوں نے پھر بھی اعراض ہی سے کام لینا چاہا، لیکن جب اصرار حد سے بڑھ گیا تب ابو زرعہ نے کہا کہ ذرا میرے بھتیجے ابو القاسم کو بلایئے۔ ابو القاسم بلائے گئے۔ حافظ ابوذرعہ نے ان سے کہا:
’’کتب خانہ میں جائو، پہلے دوسرے اور تیسرے بستے کو چھوڑ کر اس کے بعد جو بستہ ہے اس سے کتاب نکالو، گن کر سولہ حصوں کے بعد کتاب کا جو سترہواں حصہ ہے، وہ میرے پاس لائو۔‘‘
ابو القاسم گئے اور حسب ہدایت مطلوبہ جزء نکال لائے۔ لکھا ہے کہ حافظ ابوذرعہؒ نے اوراق الٹے اور حدیث جس صفحہ پر تھی، اس کو نکال کر ابن وارہ کے سامنے پیش کر دیا۔ ابن وارہ نے پڑھا اور اقرار کیا کہ غلطنا (واقعی میں ہم ہی غلطی پر تھے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More