مذکورہ بالا واقعہ کے ساتھ حافظ ابوزعہؒ کے اس دعوے کو پیش نظر رکھ لیجئے، جسے ابن حجرؒ نے ابو جعفر التستریؒ کے حوالے سے تہذیب میں نقل کیا ہے کہ وہ ان سے کہتے تھے:
’’پچاس سال ہوئے جب میں نے حدیثیں لکھی تھیں اور وہ میرے گھر میں رکھی ہوئی ہیں۔ لکھنے کے بعد اس پورے پچاس سال کے اندر ان حدیثوں کا میں نے پھر مطالعہ نہیں کیا، لیکن جانتا ہوں کہ کون سی حدیث کس کتاب میں ہے۔ اس کتاب کے کس ورق میں، کس صفحہ اور کس سطر پر ہے‘‘۔
یہ بات کہ پچاس سال کے عرصہ میں دوبارہ یاد کی ہوئی اور لکھی ہوئی حدیثوں کے دہرانے اور دیکھنے کا موقعہ حافظ ابوزرعہ کو نہ ملا۔ اس پر بھی اتنی تفصیل کے ساتھ ان حدیثوں کا یاد رہ جانا یقیناً قوت یادداشت اور حافظہ کی پختگی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔
امام بخاری ؒ کا بے مثال حافظہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے مقدمہ فتح الباری میں لکھا ہے کہ حاشد بن اسماعیل کا بیان ہے کہ ہم امام محمد بن اسماعیل بخاری ؒ کے ساتھ بصرہ کے مشائخ کے پاس جایا کرتے تھے۔ ہم لوگ لکھا کرتے تھے اور بخاری نہیں لکھتے تھے۔ بطور طعن، رفقا درس امام بخاریؒ سے کہا کرتے تھے کہ آپ خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، کیونکہ آپ احادیث لکھتے نہیں!! زیادہ چھیڑ چھاڑ جب ہوئی تو امام بخاری ؒ کو غصہ آ گیا اور فرمایا اپنی لکھی ہوئی حدیثیں لے آئو۔ اس وقت تک پندرہ ہزار احادیث لکھی جا چکی تھیں۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو سنانا شروع کر دیا تو سب حیران رہ گئے۔ پھر تو حدیثیں لکھنے والے حضرات اپنے نوشتوں کی تصحیح کے لئے امام بخاری ؒ کے حافظے پر اعتماد کرنے لگے۔
اسی طرح ایک مرتبہ جب امام بخاری ؒ بغداد تشریف لائے وہاں کے محدثین نے امام بخاری ؒ کے امتحان کا ارادہ کیا اور دس آدمی مقرر کئے۔ ہر ایک کو دس دس احادیث سپرد کیں، جن کے متون و اسانید میں تبدیلی کر دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ متون، متن کی جمع اور اسانید سند کی جمع ہے۔ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک سند دوسرا متن۔ کسی محدث سے لے کر نبی کریمؐ تک جتنے محدثین کے نام آتے ہیں، یہ حدیث کی سند کہلاتی ہے اور آگے جو حصہ ہوتا ہے، اسے متن کہا جاتا ہے۔
جب امام بخاریؒ تشریف لائے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے وہ حدیثیں پیش کیں، جن میں تبدیلی کر دی گئی تھی۔ امام صاحبؒ ہر ایک کے جواب میں ’’یہ میں نہیں جانتا‘‘ کہتے رہے۔ عوام تو یہ سمجھنے لگے کہ اس شخص کو کچھ نہیں آتا، لیکن ان میں جو علماء تھے وہ سمجھ گئے کہ امام بخاریؒ ان کی چال سمجھ گئے ہیں۔ اس طرح دس آدمیوں نے سو حدیثیں پیش کر دیں، جن کی سندوں اور متنوں میں تغیر کیا گیا تھا یعنی ایک حدیث کا متن دوسری کی سند کے ساتھ ملایا گیا تھا اور امام نے ہر ایک کے جواب میں لَا اَعْرِفُہ (یہ میں نہیں جانتا) فرمایا۔ اس کے بعد امام بخاریؒ نمبروار ایک ایک کی طرف متوجہ ہوتے گئے اور بتاتے گئے کہ تم نے پہلی روایت اس طرح پڑھی تھی، جو غلط ہے اور صحیح اس طرح ہے۔ اسی طرح ترتیب وار کل دس افراد کی اصلاح فرمائی۔ اب ان سب پر واضح ہو گیا کہ امام بخاریؒ کتنے ماہر فن ہیں اور ان کا حافظ کس کمال کا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ تعجب اس پر نہیں کہ انہوں نے غلطی پہچان لی اور اس کی اصلاح کر دی۔ کیونکہ وہ حافظ حدیث تھے۔ ان کا تو کام ہی یہ تھا۔ تعجب درحقیقت اس بات پر ہے کہ غلط احادیث کو ایک ہی مرتبہ سن کر ترتیب وار محفوظ رکھا اور پھر ترتیب کے ساتھ ان کو بھی بیان کیا اور بعد ازاں ان کی اصلاح فرمائی‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post