علی مجھے اپنی پروٹان ساگا کار میں بٹھا کر کوالالمپور کے سینٹرل ریلوے اسٹیشن سے اپنے گھر لے آیا۔ ان کا گھر کوالالمپور کے جس علاقے میں ہے، وہ گوکہ شہر کے مرکز ’’جالان کچنگ‘‘ جیسی اہم اور مصروف سڑک پر ہے، لیکن اس کے باوجود یہ علاقہ قصبے یا دیہی ماحول کا منظر پیش کررہا تھا۔ مکانات کی قطار کے درمیان کہیں کہیں خالی پلاٹ بھی نظر آئے، جہاں فی الحال کسی قسم کی تعمیرات نہیں ہو سکی تھیں۔ سامنے کے گھر والوں نے وہاں سبزیاں اور مکئی کاشت کر لی تھی۔ ہر گھر کے سامنے پالتو مرغیاں بھی نظر آئیں۔ گلیوں میں موجود بچوں اور گھروں پر لگی نیم پلیٹ پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں مکسڈ سوسائٹی کے افراد رہائش پذیر ہیں۔ یعنی نہ صرف ملئی مسلمان بلکہ چینی، تامل، سکھ اور ان کے درمیان علی کا گھر… ان کے پڑوس میں ان کے پنجابی دوست کا گھر دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔ جہاں بھی مکس قسم کے لوگ رہتے ہیں، وہاں سے انسان مزید سیکھتا ہے۔ دوسروں کی اچھی اور مثبت عادات اپناتا ہے اور ملک میں یکجہتی رہتی ہے۔
شروع میں جب سنگاپور کو انگریزوں کی جانب سے خودمختاری ملی تو اس زمانے میں یہاں ہر قوم، مذہب اور زبان کے لوگ اپنا اپنا گروپ بنا کر رہتے تھے۔ چینی الگ، ملئی اور انڈین ایک دوسرے سے ہٹ کر ’’اپنوں‘‘ کے ساتھ رہتے تھے۔ انڈین میں بھی سائوتھ انڈین تامل ساتھ رہنا پسند کرتے تھے اور سکھ، سندھی، ہندو، گجراتی، بنگالی اور پارسی ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ ہر ایک اپنی زبان، دین دھرم اور اپنے وطن (جہاں سے ان کے باپ دادا ہجرت کر کے سنگاپور میں آئے) کو بہتر سمجھتا تھا۔ ایک دوسرے سے ضد اور نفرت کا ماحول عام تھا۔ پھر ہم اپنا جہاز لے کر سنگاپور آتے تو ہم نے دیکھا کہ یہاں کے وزیراعظم لی کیان یو نے کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کرائیں اور ان کے فلیٹ قرعہ اندازی کے ذریعے شہریوں کو نہایت کم قیمت میں فروخت کئے۔ ملئی لوگوں نے کچھ ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ وہ چینیوں اور انڈین کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ انہیں الگ سے پوری عمارت دی جائے، جہاں صرف ملئی خاندان رہ سکیں۔ لیکن لی کیان یو نے جواب دیا کہ سستا گھر چاہئے تو اسی طرح ملے گا۔ کسی کو الگ تھلگ رہنے کا شوق ہے تو خود اپنی رقم سے گھر بنوائے۔
چونکہ حکومت نے ان فلیٹوں کی قیمت انتہائی کم رکھی تھی، اس لیے سب کو ان میں بے پناہ کشش محسوس ہو رہی تھی۔ لہٰذا لوگوں کو اپنے اس مؤقف سے دستبردار ہونا پڑا اور سب مکس اپ ہو کر رہنے لگے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ملئی لوگوں کو ہوا جو فطرتاً سست اور دیہی ماحول سے تعلق رکھتے تھے۔ اب تعلیم یافتہ اور تجارت پیشہ چینی اور انڈین لوگوں کے درمیان رہ کر تیز ہو گئے۔ تعلیم اور بزنس میں ہوشیار ہو گئے۔ آج سنگاپور کا ملئی، اپنے ملائیشیا کے ملئی رشتے داروں سے زیادہ سمجھ دار، چست اور کاروبار میں ماہر ہے۔
بہرحال اب ملائیشیا بھی سنگاپور کی پیروی کررہا ہے، کیونکہ ملائیشیا کی قوم اور حکومت کو احساس ہو چکا ہے کہ گروہوں میں تقسیم ہو کر رہنے سے سوائے نفرت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں پاکستان میں اس سے بالکل الٹ معاملہ ہے۔ ہمارے سندھی اسٹوڈنٹ دیگر مذاہب یا زبانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ مل جل کر رہنے کے بجائے اپنا گروپ بنا کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک ہی گائوں اور شہر سے تعلق رکھنے والے ساتھ رہیں، پھر ان میں چار پانچ افراد خیرپور ناتھن شاہ، سجاول یا گمبٹ کے ہوں گے تو وہ قریبی شہروں میہڑ، ٹھٹھہ اور خیرپور کے لوگوں سے بھی ملنا پسند نہیں کریں گے۔ ان میں نہ صرف ہمارے سندھی شامل ہیں، بلکہ ہمارے پورے ملک کا یہی حال ہے۔ آپ انگلینڈ، امریکا حتیٰ کہ ملائیشیا کی یونیورسٹیوں میں دیکھیں گے کہ وہاں ہمارے طالب علم مقامی یا دیگر غیر ملکی اسٹوڈنٹس کے ساتھ میل جول کو کم ہی ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے ملک کے طلبہ کے ساتھ ٹولا بنا کر چلتے ہیں، اس لیے وہ دوسروں کے کلچر، زبان اور مثبت باتوں کو سیکھنے اور سمجھنے سے محروم رہتے ہیں۔
علی کی اپنے پڑوس میں رہنے والی چینیوں اور ملئی لوگوں کے ساتھ اور محلے کی مسجد میں مدراسی مسلمانوں سے علیک سلیک دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
محلے کے دیگر مکانات کی طرح علی کا گھر بھی دو منزلہ تھا۔ گھر کے اگلے حصے میں اتنا بڑا کار پورچ ہے کہ وہاں دو گاڑیاں کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ ویسے بھی ملائیشیا چوری کے حوالے سے خاصا محفوظ ملک ہے۔ لوگوں کی گاڑیاں گھر سے باہر بھی کھڑی رہتی ہیں۔ ہر گھر کے اندر ایک جانب اتنی جگہ چھوڑی گئی ہے، جہاں دو دو کاروں کے تین سیٹ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ علی نے اس جگہ پر پلاسٹک شیٹ سے چھت بنا کر اسے برآمدے جیسا بنا دیا ہے۔
’’میرے ایک سکھر کے دوست نے یہاں ملائیشیا میں کھجور کا بزنس کیا تھا۔‘‘ علی نے بتایا۔ ’’اس نے پورا ایک کنٹینر بھجوا دیا تھا، اس میں سے نکلنے والے مال کو ہم نے یہاں رکھا تھا اور پھر ڈبوں میں پیک کر کے یہاں کی مارکیٹ میں فروخت کیا تھا۔‘‘
علی کے گھر میں ایک طرف مرغیوں کا ایک بڑا سا ڈربہ بھی رکھا تھا، جس میں دس مرغیاں اور تقریباً نصف درجن چوزے موجود تھے۔ ایک پستہ قد سفید رنگ کا مرغ راجہ اندر بنا ان مرغیوں کے درمیان ٹہل رہا تھا۔
’’علی! آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے اور لوکیشن بھی خوب ہے۔‘‘ میں نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’سائیں، یہ خدا پاک کا کرم ہے کہ اس نے مجھ غریب کو اس قدر نوازا ہے۔‘‘ علی نے عاجزی سے کہا۔ ’’مجھ میں تو موٹر سائیکل خریدنے کی بھی استطاعت نہیں تھی، آج میرے پاس اپنی سواری کے لیے الگ کار ہے اور کمپنی کے کاموں کے لیے الگ گاڑی ہے۔‘‘(جاری ہے)
Prev Post
Next Post