باغیوں کے بارے میں قرآنی احکام

0

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
اسلام ایک ایسا دین ہے جو رنگ و نسل اور وطن کے امتیازات مٹا کر تمام نوع انسانی کی ایک عالمگیر برادری اخلاقی بنیادوں پر قائم کرتا ہے۔ کسی قوم پر خدا کی نعمت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ اسلام پر پوری طرح عمل کرنے کے قابل ہو جائے اور اسلامی معاشرہ مساوات، اخوت، بھائی چارہ، مودّت و محبت کے اعلیٰ اصولوں پر قائم ہو جائے۔ مومن ایک دوسرے کے دوست معاون اور غمخوار بن جائیں۔ سورۃ توبہ میں آیت نمبر 71 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ ’’مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، خدا کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر خدا بہت جلد رحم فرمائے گا۔ بیشک خدا غلبہ والا، حکمت والا ہے۔‘‘ (سورۃ توبہ 71)
حدیث مبارکہ ہے: مومن مومن کیلئے ایک دیوار کی طرح ہے، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہو جاتا ہے اور تکلیف سے بیدار رہتا ہے‘‘۔
سورۃ حجرات میں ارشاد ربانی ہے: (ترجمہ) ’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو، بے شک خدا تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ (سورۃ حجرات 9 – 10)
ان آیات میں مسلمانوں کی صلح کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے، یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلافات کا حل تلاش کیا جائے اور اگر وہ خدا اور رسولؐ کے احکام کے مطابق اپنے اختلافات دور کرنے پر آمادہ نہ ہوں، بلکہ بغاوت کی روش اختیار کریں تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر باغی گروہ سے لڑائی کریں، تاکہ وہ خدا کے حکم کو ماننے کے لئے تیار ہو جائیں۔ باغی گروہ اگر بغاوت سے باز آجائے تو پھر عدل کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دو اور ہر معاملے میں انصاف کو مدنظر رکھا جائے۔ حق تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور وہ انصاف کرنے والوں کو بہترین جزا سے نواز دے گا۔ سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان سب کا ایک خدا پر ایمان ہے، اس لئے اس اصل کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے، ایک خدا کو ماننے والے، ایک کتاب پر یقین رکھنے والے اور ایک رسولؐ کی سنت پر عمل کرنے والے آپس میں نہ لڑیں۔ بلکہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہمدرد، غمگسار، مونس و خیر خواہ بن کر رہیں اور اگر کبھی غلط فہمی میں ان کے درمیان نفرت یا بغض پیدا ہو جائے تو اسے دور کر کے آپس میں ان کو دوبارہ جوڑ دیا جائے۔
سورۃ حجرات میں کافروں اور منافقوں سے جہاد کرنے اور ان پر سخت ہو جانے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ ان کافروں اور منافقین کا ٹھکانہ جہنم ہے، جو نہایت بدترین جگہ ہے۔ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ و نصیحت کی جائے یا وہ اخلاقی جرائم کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائے۔ جہاد بالسیف کا حکم کفار سے ہے اور زبانی سختی کرنے کا حکم منافقین کیلئے ہے۔ حالات کے مطابق ان میں سے کسی رائے پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔ حدیث میں مسلمان سے قتال کرنے کو کفر کہا گیا ہے اور یہ کفر اس وقت ہو گا جب بلاوجہ مسلمانوں سے قتال کیا جائے۔ لیکن اگر اس قتال کی بنیاد اگر بغاوت ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے۔ خدا کے نزدیک مسلمانوں کا کام یہ نہیں ہے کہ ان کی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں، بلکہ ایسی صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہئے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کیلئے جس کے بس میں جو کچھ بھی ہو کوشش کرنا چاہئے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے، بااثر لوگ فریقین کے ذمہ دار لوگوں سے جا کر ملیں، نزاع کے اسباب معلوم کریں اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں، جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمان زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور مظلوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ یا الٹا ظالم کا ساتھ دیں، بلکہ ان کا فرض ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تو پھر دیکھیں کہ حق پر کون ہے اور زیادتی کس کی طرف سے ہو رہی ہے۔ جو حق پر ہو، اس کا ساتھ دیں اور ظالموں کے خلاف لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ حق تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اس لئے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے۔ اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہوتا، جس کے متعلق حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے۔‘‘ کیونکہ اس فتنہ سے مراد مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے، جس میں فریقین عصبیت، حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کیلئے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلے میں ہے، حق گروہ کی حمایت کیلئے لڑی جائے تو یہ فتنے میں حصہ لینے کے مترادف نہیں ہے، بلکہ رب تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔ بعض فقہاء نے اسے جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔
زیادتی کرنے والے گروہ سے قتال کرنے کا حکم لازماً یہی معنی رکھتا کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل کیا جائے، بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال ہے اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کیلئے جس طاقت کا استعمال ضروری ہو، اسے استعمال کرنا چاہئے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنا چاہئے نہ اس سے زیادہ۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں، جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔ دراصل یہ لڑائی باغی گروہ کو بغاوت کی سزا دینے کیلئے نہیں ہے، بلکہ اسے خدا کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کیلئے ہے۔ خدا کے حکم سے مراد یہ ہے کہ قرآن اور سنت کی رو سے جو بات حق ہو، اسے یہ باغی گروہ قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے، اسے چھوڑ دے۔ جونہی کوئی باغی گروہ اس حکم پر راضی ہو جائے، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہئے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔
اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا۔ ’’زیادتی‘‘ اور ’’نزاع‘‘ میں فرق طے کرنا امت کے صاحب بصیرت اور صاحب علم لوگوں کا کام ہے۔ اس کے بعد محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے پر زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ انصاف سے فساد ٹلتا ہے، قرآن کی اس آیت سے ’’انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی بنیاد ہے۔ حضور اکرمؐ کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت نہ آئی۔ مگر اس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں اور ان باہمی جنگوں کے حکم الگ الگ ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ لڑنے والے دونوں گروہ مسلمان حکومت کی رعایا ہوں، ان میں صلح کرانا حکومت کا فریضہ ہے۔
2۔ لڑنے والے فریقین بڑے طاقتور ہوں یا دو مسلمان حکومتیں ہوں اور دونوں کی لڑائی طلب دنیا ہو، اس صورت میں اہل ایمان کو فتنے میں حصہ لینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
3۔ لڑنے والوں میں ایک حق پر اور دوسرا زیادتی کرنے والا ہو، اہل ایمان کو اہل حق کا ساتھ دینا چاہئے۔
4۔ فریقین میں سے ایک گروہ رعایا ہو اور اس نے مسلم حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو، یہی لوگ باغی ہیں۔ جو محض فساد برپا کرنے کیلئے کھڑے ہوں اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل بھی نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ جائز اور اہل ایمان کو حکومت کا ساتھ دینا واجب ہے، قطع نظر اس کے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔ ظالم و فاسق باغی گروہ کے خلاف حکومت کا ساتھ دینا اور مملکت کا نظم و نسق قائم رکھنا ضروری ہے۔ باغی گروہ کی تاویلات باطل اور عقیدہ فاسد ہو، اس کے خلاف مسلم حکومت جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اہل ایمان کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ عادل حکومت کے خلاف باغی گروہ کی سرکوبی ضروری ہے، مگر ایک ظالم حکومت جو جبراً قائم ہوئی ہے، اس کے امراء فاسق ہوں اور باغی عادل اور حدود کی اقامت کیلئے اٹھے ہوں، اس حکومت کے خلاف خروج اور قتال کو امام ابو حنیفہؒ نے نہ صرف جائز بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے ہیں۔ بنو امیہ کے خلاف زید بن علیؒ کے خروج کو امام صاحبؒ نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی کی تلقین کی تھی۔ ابو جعفر منصور کے خلاف نفس ذکیہؒ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس ذکیہؒ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا تھا۔
جنگ صرف امام عادل کے ساتھ مل کر کی جائے، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف بغاوت کی ہو، لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہنا بہتر ہے۔ اگر قانون پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کا شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت ضروری ہے۔
باغی اگر قلیل تعداد میں ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو تو وہ کچھ جنگی سامان رکھتے ہوں تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتائو کیا جائے گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا۔ اگر مال و املاک کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان وصول کیا جائے گا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں اور کثیر جمعیت اور جنگی سازو سامان کے ساتھ خروج کریں۔
باغی جب تک محض اپنے فاسد عقائد یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں گے، ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کریں اور خونریزی کی ابتدا کریں۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے، ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے، اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقابلے کا آغاز ان کی طرف سے ہو جائے، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے۔ باغیوں سے لڑائیوں میں ان ضابطوں کا خیال رکھا جائے گا۔ حضور اکرم ؐ نے حضرت ابن مسعودؓ سے پوچھا ’’اے ابن ام عبد! جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں خدا کا کیا حکم ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’خدا اور اس کے رسولؐ کو زیادہ علم ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’(1) ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، (2) ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا، (3) ان کے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، (4) ان کے مال غنیمت کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث اور بعد میں صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کو مد نظر فقہائے اسلام نے اس حوالے سے درجہ ذیل تفصیلی احکامات مستنبط کئے ہیں:
(1)، بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کرو، (2)، زخمی پر حملہ نہ کرو، (3)، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو، (4) جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، (5) لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، (6) عورتوں پر دست درازی نہ کرو، خواہ وہ تمہیں گالیاں کیوں نہ دیں۔ (7) باغیوں کے مال کو کسی صورت مال غنیمت قرار دیا جائے گا، نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اور بغاوت کا زور ٹوٹنے کے بعد ان کے مال کو انہی کو واپس کر دیا جائے گا۔(8) ان کے گرفتار شدہ لوگوں سے بغاوت نہ کرنے کا عہد لے کر رہا کر دیا جائے گا۔ (9) باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے۔ نہ کفار کے ساتھ نہ مسلمانوں کے ساتھ یہ عمل کیا جائے گا۔ (10) جنگ کے دوران باغیوں کے ہاتھوں مال و جان کا جو نقصان ہوا، جنگ ختم ہونے کے بعد اور امن قائم ہونے کے بعد اس کا کوئی قصاص ان پر عائد نہیں کیا جائے گا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان وصول کیا جائے گا تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ (11) جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو، وہاں انہوں نے اپنا نظم و ضبط قائم کر کے زکوٰۃ اور محصولات وصول کر لئے ہو، حکومت ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر کے لوگوں سے از سر نو زکوٰۃ اور محصول وصول نہیں کرے گی۔ (12) باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاقے میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان کے قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کئے ہوں تو وہ برقرار رکھے جائیں گے۔ (13) باغیوں کی شہادت اسلامی عدالت میں قابل قبول نہیں ہو گی، کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More